Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: To offer As-Salat (the prayer) behind a sleeping person)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
519.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ نماز پڑھتے رہتے اور میں (آپ کے سامنے) بستر پر عرض کے بل سوئے رہتی۔ اور جب آپ وتر پڑھنا چاہتے تو مجھے بیدار کر دیتے، چنانچہ میں بھی وتر پڑھ لیتی۔
تشریح:
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے والے اور باتیں کرنے والے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:694) حضرت امام مالک ؒ سے بھی سونے والے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی کراہت منقول ہے۔ امام بخاری ؒ کے عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعی طور پر اس میں کوئی قباحت نہیں۔ جن روایات میں اس طرح نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، وہ صحیح نہیں، چنانچہ امام ابو داؤد ؒ لکھتے ہیں کہ ابن عباس ؓ کی جس روایت میں سونے والے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی ممانعت آئی ہے، اس کی تمام سندیں اور طرق ضعیف ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس سلسلے میں جتنی بھی احادیث وارد ہیں سب کمزور ہیں جن حضرات نے اس طرح نماز پڑھنے کو مکروہ کہا ہے، وہ اس لیے کہ شاید سونے والا ایسی حرکت کرے جس سے نمازی کا خشوع خراب ہو۔ (فتح الباري:759/1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی قریب سو رہا ہو تو بذات خود اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے میں کوئی خرابی نہیں۔ لیکن اگر اس کے خراٹوں سے بے اطمینانی کی صورت پیدا ہو جائے یا کسی اور بات سے خشوع متاثر ہوتو اس صورت میں اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے سے اجتناب کرنا چاہیے، لیکن اگر اس قسم کا کوئی اندیشہ نہ ہوتو کسی کی کراہت نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
508
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
512
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
512
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
512
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ نماز پڑھتے رہتے اور میں (آپ کے سامنے) بستر پر عرض کے بل سوئے رہتی۔ اور جب آپ وتر پڑھنا چاہتے تو مجھے بیدار کر دیتے، چنانچہ میں بھی وتر پڑھ لیتی۔
حدیث حاشیہ:
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے والے اور باتیں کرنے والے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:694) حضرت امام مالک ؒ سے بھی سونے والے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی کراہت منقول ہے۔ امام بخاری ؒ کے عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعی طور پر اس میں کوئی قباحت نہیں۔ جن روایات میں اس طرح نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، وہ صحیح نہیں، چنانچہ امام ابو داؤد ؒ لکھتے ہیں کہ ابن عباس ؓ کی جس روایت میں سونے والے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی ممانعت آئی ہے، اس کی تمام سندیں اور طرق ضعیف ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس سلسلے میں جتنی بھی احادیث وارد ہیں سب کمزور ہیں جن حضرات نے اس طرح نماز پڑھنے کو مکروہ کہا ہے، وہ اس لیے کہ شاید سونے والا ایسی حرکت کرے جس سے نمازی کا خشوع خراب ہو۔ (فتح الباري:759/1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی قریب سو رہا ہو تو بذات خود اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے میں کوئی خرابی نہیں۔ لیکن اگر اس کے خراٹوں سے بے اطمینانی کی صورت پیدا ہو جائے یا کسی اور بات سے خشوع متاثر ہوتو اس صورت میں اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے سے اجتناب کرنا چاہیے، لیکن اگر اس قسم کا کوئی اندیشہ نہ ہوتو کسی کی کراہت نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے باپ نے حضرت عائشہ ؓ کے واسطے سے بیان کیا، وہ فرماتی تھیں کہ نبی کریم ﷺ نماز پڑھتے تھے اور میں (آپ ﷺ کے سامنے) بچھونے پر آڑی سوتی ہوئی پڑی ہوتی۔ جب آپ وتر پڑھنا چاہتے تو مجھے بھی جگا دیتے اور میں بھی وتر پڑھ لیتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
باب اورحدیث کی مطابقت ظاہر ہے۔ خانگی زندگی میں بعض دفعہ ایسے بھی مواقع آجاتے ہیں کہ ایک شخص سورہا ہے اور دوسرے نمازی بزرگ اس کے سامنے ہوتے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں۔ عندالضرورت اس سے نماز میں خلل نہیں آتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah (RA): The Prophet (ﷺ) used to pray while I was sleeping across in his bed in front of him. Whenever he wanted to pray Witr, he would wake me up and I would pray Witr.