تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ ان ابواب میں ان لوگوں کی تردید کرتے ہیں جنھوں نے عورت کے معاملے میں تشدد سے کام لیا ہے، چنانچہ حافظ ابن حجرؒ امام بخاری ؒ کے مقصد کو بایں الفاظ واضح کرتے ہیں: ’’پہلے باب میں آپ نے ثابت کیا تھا کہ نمازی کا کپڑا اگر دوران نماز میں عورت سے مس کرے تو اس کی نماز کے لیے نقصان دہ نہیں اور اس عنوان میں آپ نے مزید ترقی کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر خود نمازی عورت کے بدن کو ہاتھ لگا دے تو بھی نماز کے لیے ضرررساں نہیں۔‘‘ (فتح الباي:767/1)
2۔ پیش کردہ حدیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سجدے میں جاتے تو حضرت عائشہ ؓ کے پاؤں کو دبا دیتے۔ حضرت عائشہ ؓ اپنے پاؤں سمیٹ لیتیں تو آپ سجدہ کرتے۔ اگرچہ شوافع نے اسے کپڑے کے اوپر سے چھونے پر محمول کیا ہے، تاہم روایت میں اس کی صراحت نہیں ہے۔ اس لیے امام بخاری ؒ اس مسئلے میں ان کے مؤید نہیں ہیں۔
3۔ امام بخاری ؒ پر اس سلسلے میں اعتراض کیا جاتا ہے کہ جب روایت میں عورت کے پاؤں کو چھونے کی صراحت موجود ہے تو آپ نے عنوان میں لفظ (هَل) کیوں استعمال کیا ہے؟ واضح رہے کہ امام بخاری ؒ کے اصول موضوعہ میں سے ہے کہ جس مسئلے میں اختلاف ہوتا ہے، وہاں عنوان میں لفظ (هَل) استعمال کر کے اس اختلاف کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں۔ (مَسِ مرأة) سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں؟ چونکہ اس کے متعلق آئمہ کرام کے مابین اختلاف تھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے لفظ (هَل) سے مذکورہ عنوان کا آغاز فرمایا۔