قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ مَوْعِظَةِ الرَّجُلِ ابْنَتَهُ لِحَالِ زَوْجِهَا)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

5191. حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا عَلَى أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنْ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَيْنِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا حَتَّى حَجَّ وَحَجَجْتُ مَعَهُ وَعَدَلَ وَعَدَلْتُ مَعَهُ بِإِدَاوَةٍ فَتَبَرَّزَ ثُمَّ جَاءَ فَسَكَبْتُ عَلَى يَدَيْهِ مِنْهَا فَتَوَضَّأَ فَقُلْتُ لَهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنْ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَانِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا قَالَ وَاعَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ هُمَا عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ ثُمَّ اسْتَقْبَلَ عُمَرُ الْحَدِيثَ يَسُوقُهُ قَالَ كُنْتُ أَنَا وَجَارٌ لِي مِنْ الْأَنْصَارِ فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ وَهُمْ مِنْ عَوَالِي الْمَدِينَةِ وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا فَإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُهُ بِمَا حَدَثَ مِنْ خَبَرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ مِنْ الْوَحْيِ أَوْ غَيْرِهِ وَإِذَا نَزَلَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى الْأَنْصَارِ إِذَا قَوْمٌ تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَأْخُذْنَ مِنْ أَدَبِ نِسَاءِ الْأَنْصَارِ فَصَخِبْتُ عَلَى امْرَأَتِي فَرَاجَعَتْنِي فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي قَالَتْ وَلِمَ تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ وَإِنَّ إِحْدَاهُنَّ لَتَهْجُرُهُ الْيَوْمَ حَتَّى اللَّيْلِ فَأَفْزَعَنِي ذَلِكَ وَقُلْتُ لَهَا قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِكِ مِنْهُنَّ ثُمَّ جَمَعْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي فَنَزَلْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَقُلْتُ لَهَا أَيْ حَفْصَةُ أَتُغَاضِبُ إِحْدَاكُنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَوْمَ حَتَّى اللَّيْلِ قَالَتْ نَعَمْ فَقُلْتُ قَدْ خِبْتِ وَخَسِرْتِ أَفَتَأْمَنِينَ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ لِغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَهْلِكِي لَا تَسْتَكْثِرِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تُرَاجِعِيهِ فِي شَيْءٍ وَلَا تَهْجُرِيهِ وَسَلِينِي مَا بَدَا لَكِ وَلَا يَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ أَوْضَأَ مِنْكِ وَأَحَبَّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ عَائِشَةَ قَالَ عُمَرُ وَكُنَّا قَدْ تَحَدَّثْنَا أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ الْخَيْلَ لِغَزْوِنَا فَنَزَلَ صَاحِبِي الْأَنْصَارِيُّ يَوْمَ نَوْبَتِهِ فَرَجَعَ إِلَيْنَا عِشَاءً فَضَرَبَ بَابِي ضَرْبًا شَدِيدًا وَقَالَ أَثَمَّ هُوَ فَفَزِعْتُ فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ قَدْ حَدَثَ الْيَوْمَ أَمْرٌ عَظِيمٌ قُلْتُ مَا هُوَ أَجَاءَ غَسَّانُ قَالَ لَا بَلْ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ وَأَهْوَلُ طَلَّقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ وَقَالَ عُبَيْدُ بْنُ حُنَيْنٍ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ عُمَرَ فَقَالَ اعْتَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَزْوَاجَهُ فَقُلْتُ خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ قَدْ كُنْتُ أَظُنُّ هَذَا يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ فَجَمَعْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي فَصَلَّيْتُ صَلَاةَ الْفَجْرِ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَشْرُبَةً لَهُ فَاعْتَزَلَ فِيهَا وَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَإِذَا هِيَ تَبْكِي فَقُلْتُ مَا يُبْكِيكِ أَلَمْ أَكُنْ حَذَّرْتُكِ هَذَا أَطَلَّقَكُنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ لَا أَدْرِي هَا هُوَ ذَا مُعْتَزِلٌ فِي الْمَشْرُبَةِ فَخَرَجْتُ فَجِئْتُ إِلَى الْمِنْبَرِ فَإِذَا حَوْلَهُ رَهْطٌ يَبْكِي بَعْضُهُمْ فَجَلَسْتُ مَعَهُمْ قَلِيلًا ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَجِئْتُ الْمَشْرُبَةَ الَّتِي فِيهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ لِغُلَامٍ لَهُ أَسْوَدَ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ الْغُلَامُ فَكَلَّمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ كَلَّمْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ فَانْصَرَفْتُ حَتَّى جَلَسْتُ مَعَ الرَّهْطِ الَّذِينَ عِنْدَ الْمِنْبَرِ ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَجِئْتُ فَقُلْتُ لِلْغُلَامِ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ فَرَجَعْتُ فَجَلَسْتُ مَعَ الرَّهْطِ الَّذِينَ عِنْدَ الْمِنْبَرِ ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَجِئْتُ الْغُلَامَ فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَيَّ فَقَالَ قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ فَلَمَّا وَلَّيْتُ مُنْصَرِفًا قَالَ إِذَا الْغُلَامُ يَدْعُونِي فَقَالَ قَدْ أَذِنَ لَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَى رِمَالِ حَصِيرٍ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ فِرَاشٌ قَدْ أَثَّرَ الرِّمَالُ بِجَنْبِهِ مُتَّكِئًا عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ ثُمَّ قُلْتُ وَأَنَا قَائِمٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ فَرَفَعَ إِلَيَّ بَصَرَهُ فَقَالَ لَا فَقُلْتُ اللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ قُلْتُ وَأَنَا قَائِمٌ أَسْتَأْنِسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ رَأَيْتَنِي وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ إِذَا قَوْمٌ تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ فَتَبَسَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ رَأَيْتَنِي وَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَقُلْتُ لَهَا لَا يَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ أَوْضَأَ مِنْكِ وَأَحَبَّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ عَائِشَةَ فَتَبَسَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبَسُّمَةً أُخْرَى فَجَلَسْتُ حِينَ رَأَيْتُهُ تَبَسَّمَ فَرَفَعْتُ بَصَرِي فِي بَيْتِهِ فَوَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ فِي بَيْتِهِ شَيْئًا يَرُدُّ الْبَصَرَ غَيْرَ أَهَبَةٍ ثَلَاثَةٍ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ فَلْيُوَسِّعْ عَلَى أُمَّتِكَ فَإِنَّ فَارِسَ وَالرُّومَ قَدْ وُسِّعَ عَلَيْهِمْ وَأُعْطُوا الدُّنْيَا وَهُمْ لَا يَعْبُدُونَ اللَّهَ فَجَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَقَالَ أَوَفِي هَذَا أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنَّ أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلُوا طَيِّبَاتِهِمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَغْفِرْ لِي فَاعْتَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ الْحَدِيثِ حِينَ أَفْشَتْهُ حَفْصَةُ إِلَى عَائِشَةَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً وَكَانَ قَالَ مَا أَنَا بِدَاخِلٍ عَلَيْهِنَّ شَهْرًا مِنْ شِدَّةِ مَوْجِدَتِهِ عَلَيْهِنَّ حِينَ عَاتَبَهُ اللَّهُ فَلَمَّا مَضَتْ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَيْلَةً دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ فَبَدَأَ بِهَا فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ كُنْتَ قَدْ أَقْسَمْتَ أَنْ لَا تَدْخُلَ عَلَيْنَا شَهْرًا وَإِنَّمَا أَصْبَحْتَ مِنْ تِسْعٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً أَعُدُّهَا عَدًّا فَقَالَ الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَيْلَةً فَكَانَ ذَلِكَ الشَّهْرُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً قَالَتْ عَائِشَةُ ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى آيَةَ التَّخَيُّرِ فَبَدَأَ بِي أَوَّلَ امْرَأَةٍ مِنْ نِسَائِهِ فَاخْتَرْتُهُ ثُمَّ خَيَّرَ نِسَاءَهُ كُلَّهُنَّ فَقُلْنَ مِثْلَ مَا قَالَتْ عَائِشَةُ

مترجم:

5191.

سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میرے دل میں یہ خواہش رہی کہ میں سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے نبی ﷺ کی ان دو بیویوں کے متعلق سوال کروں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”اگر تم دونوں (بیویاں) اللہ کے حضور توبہ کرتی ہو تو بہتر ہے کیونکہ تمہارے دل راہ راست سے ہٹ گئے ہیں۔“ حتیٰ کہ آپ نے حج کیا اور میں بھی آپ کے ہمراہ حج کے لیے گیا۔ چنانچہ جب وہ ایک دفعہ راستے سے ایک طرف ہوئے تو میں بھی پانی کا ایک برتن لے کر ان کے ہمراہ راستے سے الگ ہو گیا۔ پھر جب وہ قضائے حاجت سے فارغ ہو کر واپس آئے تو میں نے ان سے عرض کی: اے امیر المومنین! نبی ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے وہ دو کون سی تھیں جن کے متعلق اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ”اگر تم دونوں اللہ کی طرف رجوع کرو تو بہتر ہے کیونکہ تمہارے دل راہ راست سے کچھ ہٹ گئے ہیں۔“ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سے ابن عباس! تم پر حیرت ہے، وہ سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ پھر آپ نے تفصیل سے یہ واقعہ بیان کرنا شروع کیا۔ انہوں نے فرمایا: میں اور میرے انصاری پڑوسی جو بنو امیہ بن زید سے تھے۔ ہم نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضری دیتے اور دوسرے دن میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ جب آتا تو اس دن کی وحی وغیرہ کی خبریں اسے بتاتا اور جب میں آتا تو وہ بھی اسی طرح کرتا۔ ہم قریشی لوگ اپنی عورتوں پر رعب و دبدبہ رکھتے تھے لیکن جب ہم مدینہ طیبہ آئے تو دیکھا کہ انصاری کی عورتیں ان پر غالب رہتی ہیں چنانچہ ہماری عورتیں انصاری عورتوں کے آداب سیکھنے لگیں۔ ایک دن میں نے اپنی بیوی کو ڈانٹا تو اس نے مجھے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ میں نے اس کے جواب دینے پر جب ناگواری کا اظہار کیا تو اس نے کہا: میرا جواب دینا تمہیں برا کیوں لگا ہے؟ اللہ کی قسم ! نبی ﷺ کی بیویاں بھی آپ کو جواب دیتی ہیں حتیٰ کہ بعض تو آپ سے دن سے رات تک الگ رہتی ہیں۔ میں یہ بات سن کر کانپ اٹھا اور کہا: ان میں سے جس نے بھی یہ رویہ اختیار کیا ہے وہ یقیناً بڑے خسارے میں ہے پھر میں نے اپنے کپڑے پہنے اور مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔ پھر میں حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر گیا اور اس سے کہا: اے حفصہ! کیا تم میں سے کچھ بیویاں دن سے رات تک نبی ﷺ کو ناراض رکھتی ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: پھر تم نے خود کو خسارے میں ڈال لیا ہے اور سراسر نقصان میں رکھا ہے۔ کیا تمہیں اس امر کا اندیشہ نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے غصے کی وجہ سے اللہ تعالٰی ناراض ہو جائے گا، پھر تم تباہ ہو جاؤگی۔ خبردار! تم نبی ﷺ سے زیادہ مطالبات نہ کیا کرو اور نہ کسی معاملے میں آپ کو جواب ہی دیا کرو اور نہ آپ سے علیحدہ ہی رہو۔ اگر تمہیں کوئی ضرورت ہو تو مجھ سے مانگ لیا کرو۔ تمہاری سوکن جو تم سے زیادہ خوبصورت ہے اور نبی ﷺ کو تم سے زیادہ پیاری ہے، اسکی وجہ سے تم کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جاؤ۔ ان کا اشارہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے فرمایا: ہمیں معلوم ہوا تھا کہ غسانی ہمارے ساتھ لڑائی کرنے کے لیے گھوڑوں کی نعل بندی کر رہے ہیں۔ ہوا یوں کہ ایک دن میرے انصاری ساتھی اپنی باری کے دن دربار رسالت گئے ہوئے تھے وہ رات گئے واپس آئے تو میرا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹانا شروع کر دیا اور کہا: کیا عمر گھر میں موجود ہیں؟ میں گھبراہٹ کے عالم میں باہر نکلا تو اس نے کہا: آج تو بہت بڑا حادثہ ہو گیا ہے۔ میں نے کہا: کیا بات ہوئی؟ کیا غسانی چڑھ آئے ہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں بلکہ معاملہ اس سے بھی زیادہ ہولناک اور خطرناک ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ میں نے (اپنے دل میں) کہا: حفصہ تو نقصان میں پڑ گئی اور نامراد ہو گئی، میں تو پہلے ہی خیال کیا کرتا تھا کہ عنقریب ایسا ہو جائے گا۔ پھر میں نے اپنے کپڑے پہن لیے اور نماز فجر نبی ﷺ کے ہمراہ ادا کی۔ آپ تو بالا خانہ میں تشریف لے گئے اور وہاں جا کر تنہائی اختیار کر لی۔ میں حفصہ کے پاس گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ وہ رو رہی ہے، میں نے کہا: اب روتی کیا ہو؟ میں نے تمہیں پہلے متنبہ نہیں کیا تھا؟ کیا نبی ﷺ نے تمہیں طلاق دے دی ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں ہے، آپ ﷺ تو اس وقت بالا خانہ میں تشریف رکھے ہوئے ہیں میں وہاں سے نکلا اور منبر کے پاس آیا۔ وہاں منبر کے ارد گرد کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیٹھے ہوئے رو رہے تھے میں تھوڑی دیر تک ان کے ہمراہ بیٹھا رہا، پھر جب پریشانی کا مجھ پر غلبہ ہوا تو مین اس بالا خانے کے پاس آیا جہاں نبی ﷺ تشریف فرما تھے۔ میں نے آپ کے ایک حبشی غلام سے کہا: عمر کے لیے اندر جانے کی اجازت لو، غلام اندر گیا اور نبی ﷺ سے گفتگو کر کے واپس آ گیا۔ اس نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے نبی ﷺ سے عرض کی تھی اور تمہارا ذکر بھی کیا تھا لیکن آپ نے خاموشی اختیار کی۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے کہا: میں پھر واپس ان لوگوں کے پاس جا کر بیٹھ گیا جو منبرکے ارد گرد تھے۔ پھر جب پریشانی نے زور مارا تو دوبارہ آ کر غلام سے کہا: عمر کے لیے اندر آنے کی اجازت لو۔ اس غلام نے واپس آ کر دوبارہ کہا کہ میں نے آپ ﷺ سے تمہارا ذکر کیا تو آپ خاموش رہے۔ میں پھر واپس آ گیا منبر کے پاس جو لوگ تھے ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ میرا غم پھر غالب آیا تو میں نے پھر غلام کے پاس آ کر اس سے کہا: عمر کے لیے اجازت طلب کرو۔ غلام اندر گیا اور واپس آ کر اس نے جواب دیا کہ میں نے آپ ﷺ سے تمہارا ذکر کیا تو آپ خاموش رہے۔ میں وہاں سے واپس آ رہا تھا کہ غلام نے مجھے آواز دی اور کہا کہ نبی ﷺ نے آپ کو اجازت دے دی ہےمیں جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاجر ہوا تو دیکھا کہ آپ رسیوں سے بنی ہوئی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے، جسم مبارک اور چٹائی کے درمیان کوئی بچھونا نہ تھا بان کے نشانات آپ کے پہلو مبارک پر پڑے تھے اور جس تکیے پر آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ میں نے آپ کو سلام کیا اورکھڑے کھڑے عرض کی: اللہ کی رسول! اپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے میری طرف ایک نطر اٹھا کر فرمایا: ”نہیں“ میں نے (خوشی کی وجہ سے ) نعرہ تکبیر بلند کیا اور آپ کو خوش کرنے کے لیے کہا: اللہ کے رسول! آپ کو معلوم ہے کہ ہم قریش کے لوگ عورتوں کو دبا کر رکھتے تھے۔ پھر جب ہم مدینہ طیبہ تھا۔ یہ سن کر نبی ﷺ مسکرا دیے۔ پھر میں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ کو معلوم ہے کہ میں ایک دفعہ حفصہ‬ ؓ ک‬ے پاس گیا تھا اور اس سے کہا تھا: اپنی اس سوکن کی وجہ سے کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہونا کیونکہ وہ آپ سے زیادہ خوبصورت اور آپ سے زیادہ نبی ﷺ کو پیاری ہے۔ ان کا اشارہ سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ی طرف تھا۔ میری یہ بات سن کر نبی ﷺ دوبارہ مسکرا دیے۔ میں نے جب آپ کا تبسم دیکھا تو بیٹھ گیا، پھر میں نے نطر اٹھا کرآپ ﷺ کے گھر کا جائزہ لیا، اللہ کی قسم! میں نے وہاں تین کچی کھالوں کے علاوہ اور کوئی چیز نہ دیکھی میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اللہ سے دعا کریں اللہ آپ کی امت پر وسعت کرے، فارس اور روم کے لوگوں کو وسعت اور فراخی دی گئی ہے اور انہیں دنیا کا وافر حصہ دیا گیا ہے حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔ نبی ﷺ ابھی تک ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن اب سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا: ”اے ابن خطاب! تمہاری نظر میں بھی یہ چیزیں اہمیت رکھتی ہیں؟ یہ تو وہ لوگ ہیں جنہیں جو بھلائی ملنے والی تھی وہ سب اس دنیا میں دے دی گئی ہے۔“ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کریں بہرحال نبی ﷺ نے اپنی بیویوں سے انتیس دن تک علیحدگی اختیار کیے رکھی۔ سیدہ حفصہ‬ ؓ ن‬ے سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے آپ ﷺ کا یک راز افشا کر دیا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا تھا: ”میں مہینہ بھر اپنی ازواج کے پاس نہیں جاؤں گا۔“ کیونکہ جب اللہ تعالٰی نے آپ پر عتاب فرمایا: تو آپ کو اس کا بہت رنج ہوا تھا۔ پھر جب انتیس دن گزر گئے تو آپ سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے گھر تشریف لے گئے اور بیویوں کے گھروں میں جانے کی ابتدا ان سے کی۔ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نے تو قسم اٹھائی تھی کہ ہمارے گھروں میں مہینہ بھر تشریف نہیں لائیں گے، آج آپ نے انتیسویں رات کی صبح کی ہے، میں نے تو گن گن کر یہ دن گزارے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ مہینہ انتیس کا ہے۔“ واقعی وہ مہینہ انتیس دن ہی کا تھا۔ سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ پھر اللہ تعالٰی نے آیات تخییر نازل فرمائیں اور آپ اپنی تمام ازواج میں سب سے پہلے میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے آپ ہی کا انتخاب کیا۔ اس کے بعد آپ نے تمام دوسری ازواج کو اختیار دیا تو سب نے وہی کچھ کیا جو ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا تھا۔