تشریح:
(1) اس طویل اور لمبی حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ باپ کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کو اس کے خاوند کے متعلق وعظ و نصیحت کرتا رہے، چنانچہ اس حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی دختر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما کو دو ٹوک الفاظ میں وعظ فرمایا کہ بیٹی تم خود کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر قیاس نہ کرو۔ وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی ہیں۔ انھیں اپنے حسن و جمال اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر بہت ناز ہے۔ اگر تمھیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے کہنا، اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنگ نہ کرنا۔
(2) واقعی گھریلو معاملات بہت نازک ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ ابتدا میں بہت معمولی ہوتے ہیں لیکن اگر ذرا سی غفلت اور سستی کی جائے تو نہایت خطرناک اور تباہ کن صورت حال اختیار کرلیتے ہیں، خصوصاً عورت اگر کسی اونچے گھرانے سے تعلق رکھتی ہو تو اسے طبعی طور پر اپنے باپ، بھائی اور خاندان پر ناز ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں وہ اپنے خاوند کو خاطر میں نہیں لاتی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ عورتوں کی اس قسم کی نفسیات کو خوب سمجھتے تھے، اس لیے انھوں نے بروقت اس بات کا نوٹس لیا اور اپنی بیٹی کو سمجھایا۔ باپ کو چاہیے کہ وہ پہلے دن ہی سے اپنی بیٹی کو کہہ دے کہ اب تیری خوشحالی و بدحالی تیرے خاوند سے وابستہ ہے جبکہ جنت اور جہنم کا باعث بھی تیرا خاوند ہی ہے۔ تو امید ہے کہ عائلی زندگی جنت کی نظیر ثابت ہوگی۔ والله المستعان.
(3) وه قصہ کیا تھا جس کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم اٹھائی؟ اور وہ راز کیا تھا جسے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے ظاہر کیا؟ اللہ تعالیٰ کا عتاب کس بات پر ہوا؟ ان تمام باتوں کی تفصیل ہم کتاب التفسیر میں بیان کر آئے ہیں، اسے وہاں ایک نظر دیکھ لیا جائے۔