قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات و شمائل

‌صحيح البخاري: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ كُفْرَانِ العَشِيرِ )

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَهُوَ الزَّوْجُ، وَهُوَ الخَلِيطُ، مِنَ المُعَاشَرَةِ ،فِيهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ

5197. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ خَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ مَعَهُ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا نَحْوًا مِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ قَامَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَفَعَ ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدْ تَجَلَّتْ الشَّمْسُ فَقَالَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ رَأَيْنَاكَ تَنَاوَلْتَ شَيْئًا فِي مَقَامِكَ هَذَا ثُمَّ رَأَيْنَاكَ تَكَعْكَعْتَ فَقَالَ إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ أَوْ أُرِيتُ الْجَنَّةَ فَتَنَاوَلْتُ مِنْهَا عُنْقُودًا وَلَوْ أَخَذْتُهُ لَأَكَلْتُمْ مِنْهُ مَا بَقِيَتْ الدُّنْيَا وَرَأَيْتُ النَّارَ فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ مَنْظَرًا قَطُّ وَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَاءَ قَالُوا لِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ بِكُفْرِهِنَّ قِيلَ يَكْفُرْنَ بِاللَّهِ قَالَ يَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ وَيَكْفُرْنَ الْإِحْسَانَ لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا قَالَتْ مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

یہ لفظ معاشرے سے نکلا ہے جس کے معنی خلط ملط یعنی ملا دینے کے ہیں۔ اس باب میں ابو سعید خدری ؓ نے نبی کریم ﷺسے روایت کیا ہے۔

5197.

سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں سورج کو گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے ساتھ نماز گرہن پڑھی۔ آپ نے سورہ بقرہ پڑھنے کی مقدار طویل قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، رکوع سے سر اٹھا کر پھر لمبا قیام فرمایا اور یہ قیام پہلے قیام سے کچھ مختصر تھا، پھر آپ نے دوسرا طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا پھر سر اٹھایا اس کے بعد سجدہ کیا اور کھڑے ہو گئے۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا جو پہلی رکعت کے رکوع سے کم تھا پھر اپنا سر اٹھایا اور طویل قیام کیا یہ قیام پہلے سے کچھ کم تھا، پھر رکوع کیا اور یہ رکوع پہلے رکوع سے کچھ کم طویل تھا پھر اٹھایا اور سجدے میں چلے گئے، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہو چکا تھا اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، انہیں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا، اس لیے جب تم گرہن دیکھو تو اللہ کو یاد کرو۔“ صحابہ کرام‬ ؓ ن‬ے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ اپنی جگہ کھڑے کھڑے کوئی چیز پکڑ رہے تھے۔ پھر ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے جنت دیکھی تھی یا مجھے دکھائی گئی تھی۔ میں نے اس کا خوشہ توڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تھا۔ اگر میں اس توڑ لیتا تو تم رہتی دنیا تک اسے کھاتے رہتے۔ اور مین نے دوزخ کو بھی دیکھا۔ میں نے آج جیسا قبیح منظر کبھی نہں دیکھا تھا۔ میں نے مشاہدہ کیا کہ دوزخ میں اکثریت عورتوں کی تھی۔“ ”لوگوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ایسا کیوں تھا؟ آپ نے فرمایا: ان کے کفر کی وجہ سے۔“ کہا گیا: کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ فرمایا: ”نہیں بلکہ وہ اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہیں اور اس کے احسان کو فراموش کر دیتی ہیں۔ اگر تم ان میں سے کسی ایک ساتھ زندگی بھر بھی حسن سلوک کا معاملہ کرو، پھر وہ تمہاری طرف سے کوئی تقصیر دیکھے تو فوراً کہہ دیتی ہے کہ میں نے تو تم سے کبھی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔“