Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: To offer Nawafil (non-obligatory prayers) behind a sleeping woman)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
520.
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس طرح سویا کرتی تھی کہ میرے پاؤں آپ کے قبلے کی جگہ میں ہوتے۔ جب آپ سجدہ کرتے تو میرے پاؤں کو چھوتے، میں انہیں سمیٹ لیتی۔ پھر جب آپ کھڑے ہوتے تو میں انہیں پھیلا دیتی۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ان دنوں گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ جس طرح نمازی کے سامنے مرد کے بیٹھے رہنے یا لیٹے رہنے سے نماز میں کوئی نقصان واقع نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر طبیعت میں کوئی انتشار یا نماز میں خضوع خشوع متاثر ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو عورت کے سامنے لیٹے رہنے یا بیٹھے رہنے سے کوئی نقصان نہیں ہو گا ۔ اس عنوان سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح فرض نماز پڑھنے کی اجازت نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ فرض نماز تو مسجد میں ادا کرتے تھے۔ گھر میں نوافل و سنن پڑھنے کا اہتمام ہوتا تھا، لیکن اس کا یہ مفہوم نہیں۔ چونکہ حدیث تطوع نماز سے متعلق تھی اس لیے باب میں اس کا ذکر کر دیا۔ البتہ فرض نماز پڑھنے کا بھی یہی حکم ہے۔ (فتح الباري:760/1) 2۔ علامہ کرمانی ؒ نے لکھا ہے: عنوان کا تقاضا ہے کہ عورت کی پشت نمازی کی طرف ہو لیکن حدیث سے اس کا ثبوت نہیں ملتا، کیونکہ اس کے الفاظ میں عموم ہے، پھر انھوں نے خود ہی جواب دیا کہ سونے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان قبلہ رخ ہو کر سوتا ہے اور حضرت عائشہ ؓ بھی اس پر عمل کرتی ہوں گی، اس بنا پر یہ حدیث عنوان کے مطابق ہے۔ (شرح الکرماني:166/2) اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ اس جواب میں تکلف ہے، کیونکہ سنت پر عمل کرنا (قبلہ رخ سونا) تو نیند کے آغاز میں ہے، ہمیشہ اسی حالت پر رہنا ضروری نہیں۔ سوتے وقت انسان غیر شعوری طور پر کروٹ بدلتا رہتا ہے، اس لیے میرے نزدیک جواب یہ ہے کہ عنوان میں "خلف المراة " کے الفاظ ہیں، ''خلف ظهر المرأة'' کے الفاظ نہیں کہ ہمیں اس کی جواب دہی میں تکلف کرنا پڑے، لہٰذا عورت کا سامنے ہونا کافی ہے خواہ وہ کسی حالت میں ہو۔ (فتح الباري:760/1) 3۔ حافظ ابن حجر ؒ نے تنبیہ کا عنوان دے کر لکھا ہے کہ اس حدیث میں جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ اسی بستر پر نماز پڑھتے جس پر حضرت عائشہ ؓ سوئی ہوتیں۔ اس صورت میں آ پ ﷺ ان کے پاؤں کو چھودیتے تو وہ پیچھے کر لیتیں ۔ اور جس میں ہے کہ آپ کے اور قبلے کے درمیان ہوتی تو وہ دوسرا واقعہ ہے جس میں حضرت عائشہ ؓ چار پائی پر ہوتیں اور رسول اللہ ﷺ نیچے نماز پڑھ رہے ہوتے۔ اس حالت میں پاؤں چھونے کی ضرورت نہیں گویا یہ دو الگ الگ واقعات ہیں۔ (فتح الباري:760/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
509
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
513
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
513
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
513
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس طرح سویا کرتی تھی کہ میرے پاؤں آپ کے قبلے کی جگہ میں ہوتے۔ جب آپ سجدہ کرتے تو میرے پاؤں کو چھوتے، میں انہیں سمیٹ لیتی۔ پھر جب آپ کھڑے ہوتے تو میں انہیں پھیلا دیتی۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ان دنوں گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ جس طرح نمازی کے سامنے مرد کے بیٹھے رہنے یا لیٹے رہنے سے نماز میں کوئی نقصان واقع نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر طبیعت میں کوئی انتشار یا نماز میں خضوع خشوع متاثر ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو عورت کے سامنے لیٹے رہنے یا بیٹھے رہنے سے کوئی نقصان نہیں ہو گا ۔ اس عنوان سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح فرض نماز پڑھنے کی اجازت نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ فرض نماز تو مسجد میں ادا کرتے تھے۔ گھر میں نوافل و سنن پڑھنے کا اہتمام ہوتا تھا، لیکن اس کا یہ مفہوم نہیں۔ چونکہ حدیث تطوع نماز سے متعلق تھی اس لیے باب میں اس کا ذکر کر دیا۔ البتہ فرض نماز پڑھنے کا بھی یہی حکم ہے۔ (فتح الباري:760/1) 2۔ علامہ کرمانی ؒ نے لکھا ہے: عنوان کا تقاضا ہے کہ عورت کی پشت نمازی کی طرف ہو لیکن حدیث سے اس کا ثبوت نہیں ملتا، کیونکہ اس کے الفاظ میں عموم ہے، پھر انھوں نے خود ہی جواب دیا کہ سونے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان قبلہ رخ ہو کر سوتا ہے اور حضرت عائشہ ؓ بھی اس پر عمل کرتی ہوں گی، اس بنا پر یہ حدیث عنوان کے مطابق ہے۔ (شرح الکرماني:166/2) اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ اس جواب میں تکلف ہے، کیونکہ سنت پر عمل کرنا (قبلہ رخ سونا) تو نیند کے آغاز میں ہے، ہمیشہ اسی حالت پر رہنا ضروری نہیں۔ سوتے وقت انسان غیر شعوری طور پر کروٹ بدلتا رہتا ہے، اس لیے میرے نزدیک جواب یہ ہے کہ عنوان میں "خلف المراة " کے الفاظ ہیں، ''خلف ظهر المرأة'' کے الفاظ نہیں کہ ہمیں اس کی جواب دہی میں تکلف کرنا پڑے، لہٰذا عورت کا سامنے ہونا کافی ہے خواہ وہ کسی حالت میں ہو۔ (فتح الباري:760/1) 3۔ حافظ ابن حجر ؒ نے تنبیہ کا عنوان دے کر لکھا ہے کہ اس حدیث میں جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ اسی بستر پر نماز پڑھتے جس پر حضرت عائشہ ؓ سوئی ہوتیں۔ اس صورت میں آ پ ﷺ ان کے پاؤں کو چھودیتے تو وہ پیچھے کر لیتیں ۔ اور جس میں ہے کہ آپ کے اور قبلے کے درمیان ہوتی تو وہ دوسرا واقعہ ہے جس میں حضرت عائشہ ؓ چار پائی پر ہوتیں اور رسول اللہ ﷺ نیچے نماز پڑھ رہے ہوتے۔ اس حالت میں پاؤں چھونے کی ضرورت نہیں گویا یہ دو الگ الگ واقعات ہیں۔ (فتح الباري:760/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی عمر بن عبیداللہ کے غلام ابوالنضر سے، انھوں نے ابوسلمہ عبداللہ بن عبدالرحمن سے، انھوں نے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ ؓ سے کہ آپ ؓ نے فرمایا، میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے سو جایا کرتی تھی۔ میرے پاؤں آپ ﷺ کے سامنے (پھیلے ہوئے) ہوتے۔ جب آپ ﷺ سجدہ کرتے تو پاؤں کو ہلکے سے دبا دیتے اور میں انھیں سکیڑ لیتی پھر جب قیام فرماتے تو میں انھیں پھیلا لیتی تھی اس زمانہ میں گھروں کے اندر چراغ نہیں ہوتے تھے۔ (معلوم ہوا کہ ایسا کرنا بھی جائز ہے)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah (RA): The wife of the Prophet (ﷺ), "I used to sleep in front of Allah's Apostle (ﷺ) with my legs opposite his Qibla (facing him); and whenever he prostrated, he pushed my feet and I withdrew them and whenever he stood, I stretched them." 'Aisha (RA) added, "In those days there were no lamps in the houses."