تشریح:
1۔ ابن بطال شارح صحیح بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ یہ عنوان بھی سابقہ عناوین سے ملتا جلتا ہے کہ عورت جب نمازی کی پشت پر سے کوئی چیز دور کرے گی تو جس جانب سے ہٹانے میں اسے آسانی ہوگی عورت کو اسی جانب جانا ہو گا، اس لیے کمر سے بوجھ ہٹانے کا مضمون سامنے سے گزرنے کے مضمون سے اگر زیادہ اہم نہیں تو اس سے کم بھی نہیں۔ (شرح ابن بطال:146/2) اس میں کوئی شک نہیں کہ امام بخاری ؒ ان ابواب میں ایک طرف تو عورت کے معاملے میں تشدد کی رواہ اختیار کرنے والوں کو تنبیہ کر رہے ہیں تو دوسری طرف یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جب اسے چھونے میں کوئی مضائقہ نہیں، جب اتصال جسمانی سے بھی نماز ختم نہیں ہوتی تو اسے نماز کے لیے سترہ بنانے میں بدرجہ اولیٰ نقصان دہ نہیں ہونا چاہیے۔ 2۔ ابن بطال نے مزید فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے کفار کے خلاف بددعا اس وقت فرمائی جب آپ ان سے راہ حق اختیار کرنے کے متعلق مایوس ہو چکے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے شرف قبولیت بخشا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا ہے: ﴿إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ﴾ ’’ہم آپ کی طرف سے ٹھٹھا کرنے والوں کو کافی ہیں۔‘‘ (الحجر:15/95) لیکن جن لوگوں کے متعلق قبول ہدایت کی امید تھی ان کے لیے آپ نے ہدایت قبول کرنے اور حق کی طرف لوٹنے کی دعا فرمائی جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ (شرح ابن بطال:167/2) اگر قرائن سے کفارکے متعلق معلوم ہو جائے کہ وہ اپنی حرکات شینعہ سے باز آنے والے نہیں تو ان کے حق میں ان بنام بددعا کرنا جائز ہے، کیونکہ مومن کا آخری ہتھیار دعاہی ہوتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی دعا قبول ہوئی اور وہ سب بدر کی لڑائی میں ذلت کے ساتھ مارے گئے اور ہمیشہ کے لیے اللہ کی لعنت میں گرفتار ہوئے۔ 3۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس روایت میں عمارہ بن ولید کو قلیب بدر والوں میں شمار کرنا وجہ اشکال بنا ہے، کیونکہ اصحاب سیر نے لکھا ہے کہ اس کی موت حبشہ میں ہوئی تھی، جبکہ نجاشی شاہ حبشہ نے اس کی غلط روش پر تنبیہ کرنے کے لیے ایک جادو گر کے ذریعے سے اس پر جادو کرایا تھا۔ جس کی بنا پر وہ حبشی جانوروں کی طرح گلی کوچوں میں دوڑتا اور مارامارا پھرتا۔ حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں بایں حالت ہی اسے موت آئی۔ اس اشکال کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے ان اشرار قریش میں سے اکثر کو بدر کے کنویں میں دیکھا ہو گا۔ (فتح الباري:457/1)