تشریح:
(1) حدیث کے مطابق بیوی کو مارنا درست نہیں جبکہ قرآن میں اس کی اجازت دی گئی ہے؟ ان میں تطبیق کی یہ صورت ہے کہ ایسی مار نہ ہو جس سے زخم آ جائیں، چنانچہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے کہ اگر عورتیں کھلی بے حیائی کریں تو تم انھیں بستروں سے علیحدہ کر دو اور ایسی مار دو کہ انھیں چوٹ نہ آئے۔ (جامع الترمذی، الرضاع، حدیث: 1163)
(2) بہرحال چند شرائط کے ساتھ عورتوں کو مارنے کی اجازت ہے۔ ٭اسے غلاموں کی طرح بے تحاشا نہ مارے۔ ٭ بیوی کے منہ پر نہ مارے۔ ٭ایسی مار نہ ہو جس سے کوئی زخم آ جائے یا کوئی ہڈی پسلی ٹوٹ جائے۔ ان حدود و قیود کے ساتھ خاوند کو مجبوری کی حالت میں بیوی کو مارنے کی اجازت دی گئی ہے۔
(3) واضح رہے کہ درج ذیل وجوہات کی بنا پر خاوند اپنی بیوی کو مار سکتا ہے: ٭نماز چھوڑنے پر٭ غسل بروقت نہ کرنے پر٭ زینت ترک کرنے پر٭ اپنے پاس بلانے کے باوجود اس کے نہ آنے پر٭ بلا اجازت گھر سے باہر جانے پر۔ اس بنا پر بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے خاوند کی رمز شناس ہو اور ہر حکم کی اطاعت گزار ہو بشرطیکہ وہ کام شریعت کے خلاف نہ ہو۔