صحیح بخاری
8. کتاب: نماز کے احکام و مسائل
105. باب: اس شخص کی دلیل جس نے یہ کہا کہ نماز کو کوئی چیز نہیں توڑتی۔
صحيح البخاري
8. كتاب الصلاة
105. بَابُ مَنْ قَالَ لاَ يَقْطَعُ الصَّلاَةَ شَيْءٌ
Sahi-Bukhari
8. Prayers (Salat)
105. Chapter: Whoever says "Nothing annuls As-Salat (the prayer) (i.e. nothing of what others do, not the praying person himself)."
باب: اس شخص کی دلیل جس نے یہ کہا کہ نماز کو کوئی چیز نہیں توڑتی۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: Whoever says "Nothing annuls As-Salat (the prayer) (i.e. nothing of what others do, not the praying person himself).")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
522.
حضرت ابن شہاب کے بھتیجے نے اپنے چچا (امام زہری) سے سوال کیا: نماز کو کوئی چیز توڑ دیتی ہے؟ انھوں نے فرمایا: نماز کو کوئی چیز نہیں توڑتی۔ مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ عائشہ ؓ نے فرمایا: نبی ﷺ رات کو کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے جبکہ میں آپ کے اور قبلے کے درمیان آپ کے گھر کے بستر پر عرض میں (جنازے کی طرح) لیٹی رہتی تھی۔
تشریح:
پیش کردہ روایات میں اختصار ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ نے قبل ازیں علی بن مسہر کے طریق سے بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے ہاں ذکر ہوا کہ کون سی چیزیں نماز کی قاطع ہیں؟ تو لوگوں نے کہا:کتا، گدھا اور عورت، اس کے بعد آپ نے مذکورہ جواب دیا۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1142 (512)) صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے خود سوال کیا کہ نماز کوکون سی چیز توڑتی ہے؟ تو حضرت عروہ بن زبیر نے جواب دیا: عورت اور گدھا۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1137(510)) ایک روایت میں ہے حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: اے اہل عراق! تم نے ہمیں کتوں اور گدھوں کے برابر کر دیا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کا اشارہ اس روایت کی طرف تھا جسے حضرت ابو ذر ؓ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’عورت، گدھا اور کتا نماز کو توڑ دیتا ہے۔‘‘ ایک روایت میں سیاہ فام کتے کی قید ہے اور اسے آپ نے شیطان قراردیا ہے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1139(511)) صحیح مسلم ہی میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہی روایت مروی ہے، لیکن وہاں مطلق کتے کا ذکر ہے، اس کے سیاہ ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1139 (511)) سنن ابی داؤد میں عورت کے ساتھ حائضہ ہونے کا اضافہ ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:703) ان روایات میں نماز کوتوڑدینے سےکیا مراد ہے؟ ہم اس سے قبل اس کی وضاحت کر آئے ہیں کہ اس کا راجح مفہوم نماز کا باطل ہوجانا اور نماز کا دو بار دہرایا جانا ہے۔ اگرچہ بعض حضرات نے اس سے خشوع خضوع کی کمی مراد لی ہے اور بعض حضرت ابو ذر ؓ کی حدیث کو منسوخ کہتے ہیں، لیکن پہلے مفہوم کی تائید حدیث سے ہوتی ہے۔ اس لیے وہی مفہوم راجح ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کو اصل مضمون کے متعلق شکایت نہیں تھی، کیونکہ وہ خود بھی نماز کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے بیٹھنے کو پسند نہیں کرتی تھیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اصل مضمون کے پیش نظر وہ کھسک جانے کا عمل کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ ؓ کو روایت بیان کرنے کے انداز اور لب و لہجے پر اعتراض تھا کہ بیان کرنے والوں نے عورت گدھے اور کتے کو ایک ہی فہرست میں شمار کیا ہے، اس کی تعبیر یوں بھی ہو سکتی تھی کہ کتے اور گدھے کے سامنے سے گزرنے پر نماز قطع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح عورتوں کا بھی یہی حکم ہے۔ یعنی حضرت عائشہ کتے، گدھے اور عورت کے مسئلے میں فرق کر رہی ہیں کہ خشوع صلاۃ کو ختم یا کمزور کرنے کے سلسلے میں کتے، گدھے اور عورت تینوں کو شیطان سے تعلق رکھنے کی بنا پر مؤثر مان لیا جائے تب بھی عورت کے متعلق عموم کی بات صحیح نہیں، مثلاً: کتے کے متعلق حدیث میں ہے کہ وہ شیطان ہے اور گدھے کے متعلق ہے کہ جب تم اس کی آواز سنو تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو کیونکہ وہ شیطان کو دیکھ کر آواز نکالتا ہے، جبکہ عورت کا یہ معاملہ نہیں۔ بہرحال یہ حضرت عائشہ ؓ کا خیال تھا۔ اس خیال کی وجہ یہی قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کو مذکورہ حدیث :(تُعادُ الصَّلاَةُ مِنْ مَمَرِّ الحِمَارِ، وَالمرْأةِ، وَالكَلْبِ الأسْوَدِ)( سلسلة الأحدیث الصحیحة، رقم: 3323) کا علم نہیں ہو گا جس میں گدھے، عورت اور سیاہ فام کتے، تینوں کے گزرنے پر نماز کو دہرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
511
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
515
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
515
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
515
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جن الفاظ کو عنوان قراردیا ہے وہ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔ مؤطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ الفاظ مروی ہیں سعید بن منصور نے صحیح سند کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان الفاظ کو بیان کیا ہے دراقطنی میں یہ الفاظ بطور مرفوع حدیث کے مروی ہیں لیکن اس کی سند کمزور ہے۔ اس کے علاوہ ابو داؤد میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ دارقطنی میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور طبرانی اوسط میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ الفاظ مرفوعاً منقول ہیں لیکن ان روایات کی اسناد کمزور ہیں۔( فتح الباری:1/760۔)
حضرت ابن شہاب کے بھتیجے نے اپنے چچا (امام زہری) سے سوال کیا: نماز کو کوئی چیز توڑ دیتی ہے؟ انھوں نے فرمایا: نماز کو کوئی چیز نہیں توڑتی۔ مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ عائشہ ؓ نے فرمایا: نبی ﷺ رات کو کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے جبکہ میں آپ کے اور قبلے کے درمیان آپ کے گھر کے بستر پر عرض میں (جنازے کی طرح) لیٹی رہتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
پیش کردہ روایات میں اختصار ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ نے قبل ازیں علی بن مسہر کے طریق سے بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے ہاں ذکر ہوا کہ کون سی چیزیں نماز کی قاطع ہیں؟ تو لوگوں نے کہا:کتا، گدھا اور عورت، اس کے بعد آپ نے مذکورہ جواب دیا۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1142 (512)) صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے خود سوال کیا کہ نماز کوکون سی چیز توڑتی ہے؟ تو حضرت عروہ بن زبیر نے جواب دیا: عورت اور گدھا۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1137(510)) ایک روایت میں ہے حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: اے اہل عراق! تم نے ہمیں کتوں اور گدھوں کے برابر کر دیا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کا اشارہ اس روایت کی طرف تھا جسے حضرت ابو ذر ؓ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’عورت، گدھا اور کتا نماز کو توڑ دیتا ہے۔‘‘ ایک روایت میں سیاہ فام کتے کی قید ہے اور اسے آپ نے شیطان قراردیا ہے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1139(511)) صحیح مسلم ہی میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہی روایت مروی ہے، لیکن وہاں مطلق کتے کا ذکر ہے، اس کے سیاہ ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1139 (511)) سنن ابی داؤد میں عورت کے ساتھ حائضہ ہونے کا اضافہ ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:703) ان روایات میں نماز کوتوڑدینے سےکیا مراد ہے؟ ہم اس سے قبل اس کی وضاحت کر آئے ہیں کہ اس کا راجح مفہوم نماز کا باطل ہوجانا اور نماز کا دو بار دہرایا جانا ہے۔ اگرچہ بعض حضرات نے اس سے خشوع خضوع کی کمی مراد لی ہے اور بعض حضرت ابو ذر ؓ کی حدیث کو منسوخ کہتے ہیں، لیکن پہلے مفہوم کی تائید حدیث سے ہوتی ہے۔ اس لیے وہی مفہوم راجح ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کو اصل مضمون کے متعلق شکایت نہیں تھی، کیونکہ وہ خود بھی نماز کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے بیٹھنے کو پسند نہیں کرتی تھیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اصل مضمون کے پیش نظر وہ کھسک جانے کا عمل کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ ؓ کو روایت بیان کرنے کے انداز اور لب و لہجے پر اعتراض تھا کہ بیان کرنے والوں نے عورت گدھے اور کتے کو ایک ہی فہرست میں شمار کیا ہے، اس کی تعبیر یوں بھی ہو سکتی تھی کہ کتے اور گدھے کے سامنے سے گزرنے پر نماز قطع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح عورتوں کا بھی یہی حکم ہے۔ یعنی حضرت عائشہ کتے، گدھے اور عورت کے مسئلے میں فرق کر رہی ہیں کہ خشوع صلاۃ کو ختم یا کمزور کرنے کے سلسلے میں کتے، گدھے اور عورت تینوں کو شیطان سے تعلق رکھنے کی بنا پر مؤثر مان لیا جائے تب بھی عورت کے متعلق عموم کی بات صحیح نہیں، مثلاً: کتے کے متعلق حدیث میں ہے کہ وہ شیطان ہے اور گدھے کے متعلق ہے کہ جب تم اس کی آواز سنو تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو کیونکہ وہ شیطان کو دیکھ کر آواز نکالتا ہے، جبکہ عورت کا یہ معاملہ نہیں۔ بہرحال یہ حضرت عائشہ ؓ کا خیال تھا۔ اس خیال کی وجہ یہی قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کو مذکورہ حدیث :(تُعادُ الصَّلاَةُ مِنْ مَمَرِّ الحِمَارِ، وَالمرْأةِ، وَالكَلْبِ الأسْوَدِ)( سلسلة الأحدیث الصحیحة، رقم: 3323) کا علم نہیں ہو گا جس میں گدھے، عورت اور سیاہ فام کتے، تینوں کے گزرنے پر نماز کو دہرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے میرے بھتیجے ابن شہاب نے بیان کیا، انھوں نے اپنے چچا سے پوچھا کہ کیا نماز کو کوئی چیز توڑ دیتی ہے؟ تو انھوں نے فرمایا کہ نہیں، اسے کوئی چیز نہیں توڑتی۔ کیونکہ مجھے عروہ بن زبیر ؓ نے خبر دی ہے کہ نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کھڑے ہو کر رات کو نماز پڑھتے اور میں آپ کے سامنے آپ کے اور قبلہ کے درمیان عرض میں بستر پر لیٹی رہتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
تفصیل پہلے تحفة الأحوذي کے حوالہ سے گزر چکی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah (RA): (The wife of the Prophet (ﷺ)) Allah's Apostle (ﷺ) used to get up at night and pray while I used to lie across between him and the Qibla on his family's bed.