تشریح:
(1) امامت جبرائیل ؑ کی روایت سے تحدید اوقات کی اہمیت ثابت کرنے کے بعد خصوصیت کے ساتھ نماز عصر کی اہمیت اور اس کو اول وقت پڑھنے کی ضرورت کو بیان کیا جارہا ہے، کیونکہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ سے نماز عصر ہی میں تاخیر ہوئی تھی۔ چونکہ عصر کی نماز میں وقت مکروہ بھی شامل ہے، اس لیے اسے ادا کرتے وقت احتیاط کی ضرورت ہے، مبادا مکروہ وقت میں داخل ہو جائے۔ امام بخاری ؒ اس حدیث سے نماز عصر کا اول وقت ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں: اس سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز عصر ایک مثل سایہ دراز ہونے کے بعد ہوتی تھی، اس لیے کہ اس وقت حجرے کی دیواریں بہت اونچی نہ تھیں، صحن بھی کشادہ نہ تھا، ایسے حجروں میں دیواروں پر دھوپ ایک مثل کے بعد ہی ظاہر ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اول وقت نماز ادا کرنے کو بہترین عمل قرار دیا ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:170) قران مجید میں صلاة وسطیٰ کی حفاظت کے متعلق خصوصی ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ (البقرة: 238:2) حدیث کے مطابق صلاة وسطیٰ سے مراد صلاة عصر ہے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1426(628))
(2) ہم نے ترجمہ کرتے وقت بریکٹ میں لفظ سایہ کا اضافہ کیا ہے، کیونکہ سورج کے نیچےہونے سے دیواروں کا سایہ اوپرچڑھتا ہے، نیز اس حدیث کے بعض طرق میں اس کی وضاحت بھی ہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ خود بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز عصر اس وقت پڑھ لیتے تھے کہ دھوپ ابھی میرے حجرے میں ہوتی اور دیواروں کا سایہ ابھی نمایہ نہ ہوتا تھا۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 545، 546)