تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو ایک قطعۂ ارضی الاٹ کیا تھا، وہ اس کے مالک نہ تھے بلکہ اس سے حاصل شدہ منافع لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہ نے اسے مستثنیٰ نہیں کیا، حالانکہ یہ سہولیات بھی انھیں مدینہ طیبہ میں میسر تھیں۔
(2) اس حدیث میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی غیرت کا ذکر ہے جسے ثابت کرنے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث بیان کی ہے۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھنے میں کوئی عار نہ تھی اور نہ یہ غیرت ہی کے منافی تھا، البتہ سر پر گٹھلی اٹھانے میں لوگ ذلت و خواری محسوس کرتے ہیں اور اسے قلت غیرت پر محمول کرتے ہیں۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے والد گرامی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے شوہر نامدار جہاد میں مصروف رہتے تھے، اس لیے گھر اور باہر کا کام کاج حضرت اسماء رضی اللہ عنہ خود کرتی تھیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن امور کا شوہر محتاج ہو، انھیں بجالانا بیوی کی ذمہ داری ہے۔ والله اعلم