باب: اس بارے میں کہ نماز میں اگر کوئی اپنی گردن پر کسی بچی کو اٹھا لے تو کیا حکم ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: If a small girl is carried on one's neck during the Salat (prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
523.
حضرت ابوقتادہ انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت امامہ ؓ کو اٹھائے ہوئے نماز پڑھ لیتے تھے جو آپ کی لخت جگر حضرت زینب ؓ اور حضرت ابوالعاص بن ربیعہ بن عبد شمسس کی بیٹی تھی۔ جب آپ سجدہ کرتے تو اسے اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اسے اٹھا لیتے۔
تشریح:
1۔ ابن بطال شارح بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ اس باب میں امام بخاری ؒ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جب بچی کو کندھے پر اٹھا کر نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں تو عورت کے نمازی کے سامنے سے گزرنے پر کیا اشکال ہو سکتا ہے؟ کیونکہ محض گزرنا کندھے پر اٹھانے سے کہیں معمولی بات ہے۔ (شرح ابن بطال:144/2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ امام شافعی ؒ نے بھی اسی استنباط کی طرف اشارہ کیا ہے، لیکن امام بخاری ؒ نے عنوان میں چھوٹی بچی کا ذکر کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ بڑی عورت کو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ (فتح الباري:763/1) 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوران نماز میں بچے کو اٹھانے سے نماز فاسد نہیں ہوتی، نیز اس قدر تھوڑا عمل نماز کے منافی نہیں۔ یہ عمل بوقت ضرورت جائز تو ہے مگر دور حاضر میں علماء حضرات کو اس سے احتیاط کرنی چاہیے، کیونکہ جو چیزیں عام لوگوں کی نظروں میں قابل اعتراض ہوں انھیں عام طور پر بلاوجہ اختیار کر لینے سے الجھن پیدا ہوتی ہے۔ دراصل امام بخاری ؒ احکام ومسائل میں وسعت کے پیش نظر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ کبھی کبھارکسی خاص موقع پر اگر کسی نے اپنے کسی پیارے بچے کو دوران نماز میں کندھے پر بٹھا لیا تو اس سے نماز فاسد نہ ہو گی، لیکن احتیاط کا دامن کسی وقت بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
512
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
516
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
516
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
516
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
حضرت ابوقتادہ انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت امامہ ؓ کو اٹھائے ہوئے نماز پڑھ لیتے تھے جو آپ کی لخت جگر حضرت زینب ؓ اور حضرت ابوالعاص بن ربیعہ بن عبد شمسس کی بیٹی تھی۔ جب آپ سجدہ کرتے تو اسے اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اسے اٹھا لیتے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ابن بطال شارح بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ اس باب میں امام بخاری ؒ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جب بچی کو کندھے پر اٹھا کر نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں تو عورت کے نمازی کے سامنے سے گزرنے پر کیا اشکال ہو سکتا ہے؟ کیونکہ محض گزرنا کندھے پر اٹھانے سے کہیں معمولی بات ہے۔ (شرح ابن بطال:144/2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ امام شافعی ؒ نے بھی اسی استنباط کی طرف اشارہ کیا ہے، لیکن امام بخاری ؒ نے عنوان میں چھوٹی بچی کا ذکر کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ بڑی عورت کو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ (فتح الباري:763/1) 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوران نماز میں بچے کو اٹھانے سے نماز فاسد نہیں ہوتی، نیز اس قدر تھوڑا عمل نماز کے منافی نہیں۔ یہ عمل بوقت ضرورت جائز تو ہے مگر دور حاضر میں علماء حضرات کو اس سے احتیاط کرنی چاہیے، کیونکہ جو چیزیں عام لوگوں کی نظروں میں قابل اعتراض ہوں انھیں عام طور پر بلاوجہ اختیار کر لینے سے الجھن پیدا ہوتی ہے۔ دراصل امام بخاری ؒ احکام ومسائل میں وسعت کے پیش نظر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ کبھی کبھارکسی خاص موقع پر اگر کسی نے اپنے کسی پیارے بچے کو دوران نماز میں کندھے پر بٹھا لیا تو اس سے نماز فاسد نہ ہو گی، لیکن احتیاط کا دامن کسی وقت بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے عامر بن عبداللہ بن زبیر ؓ سے خبر دی، انھوں نے عمرو بن سلیم زرقی سے، انھوں نے ابوقتادہ انصاری ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ امامہ بنت زینب بنت رسول اللہ ﷺ کو (بعض اوقات) نماز پڑھتے وقت اٹھائے ہوتے تھے۔ ابوالعاص بن ربیعہ بن عبد شمس کی حدیث میں ہے کہ سجدہ میں جاتے تو اتار دیتے اور جب قیام فرماتے تو اٹھا لیتے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امامہ بنت ابوالعاص ؓ آنحضرت ﷺ کی بڑی محبوب نواسی تھیں، بعض اوقات اس فطری محبت کی وجہ سے آنحضرت ﷺ ان کو جب یہ بہت چھوٹی تھیں، نماز میں کندھے پر بھی بٹھا لیا کرتے تھے۔ حضرت امامہ ؓ کا نکاح حضرت علی ؓ سے ہوا جب کہ حضرت فاطمہ ؓ کا انتقال ہو چکا تھا۔ اور وہ ان سے نکاح کرنے کی وصیت بھی فرماگئی تھیں، یہ 11 ھ کا واقعہ ہے۔ 40 ھ میں حضرت علی ؓ شہید کردیے گئے تو آپ ؓ کی وصیت کے مطابق حضرت امامہ ؓ کا عقد ثانی مغیرہ بن نوفل سے ہوا۔ جو حضرت عبدالمطلب کے پوتے ہوتے تھے۔ ان ہی کے پاس آپ نے وفات پائی۔ حضرت امام بخاری ؒ احکام اسلام میں وسعت کے پیش نظر بتلانا چاہتے ہیں کہ ایسے کسی خاص موقعہ پر اگر کسی شخص نے نماز میں اپنے کسی پیارے معصوم بچے کو کاندھے پر بٹھا لیا تواس سے نماز فاسد نہ ہو گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Qatada Al-Ansari (RA): Allah's Apostle (ﷺ) was praying and he was carrying Umama the daughters of Zainab, the daughter of Allah's Apostle (ﷺ) and she was the daughter of 'As bin Rabi'a bin 'AbduShams. When he prostrated, he put her down and when he stood, he carried her (on his neck).