تشریح:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح ہے کہ آیت مبارکہ میں نفئ شرک کو اقامتِ صلاۃ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور مذکورہ حدیث میں توحید اور اقامت صلاۃ کو اکٹھا بیان کیا گیا ہے، ایمان اور ترک شرک ایک ہی چیز ہے۔ (عمدة القاري:9/4)
(2) عرب کے دو خاندان ربیعہ اور مضر دور جاہلیت ہی سے ایک دوسرے کے دشمن چلے آرہے تھے۔ ظہور اسلام کے بعد ربیعہ قبیلہ مسلمان ہوگیا۔ انھیں مدینہ طیبہ آنے کے لیے مضر قبیلے کے پاس سے ہو کرگزرنا پڑتا تھا۔ خونریزی اور باہمی جنگ وقتال سے بچنے کے لیےوہ صرف حرمت والے مہینوں میں ہی سفر کرسکتے تھے، کیونکہ ان کااحترام تمام اہل عرب کرتے تھے۔ حدیث میں وفد عبدالقیس نے اپنی اسی مجبوری کا ذکر کیا ہے۔
(3) عرب لوگ شراب کے رسیا تھے اور شراب کے لیے مندرجہ ذیل برتنوں کو استعمال کرتے تھے: ٭دباء: خشک کدو، جسے صاف کرکے بطور برتن استعمال کیا جاتا تھا۔ ٭حنتم: سرخی مائل سبز رنگ کا روغنی مرتبان۔ ٭ مقير: تار کول سے روغن کیا ہوا برتن۔٭نقير: کھجور کے تنے کوکرید کر تیار کردہ ایک برتن۔ ان برتنوں میں شراب رکھنے سےاس کا نشہ دوآتشہ بلکہ سہ آتشہ ہوجاتا۔ جب شراب کو حرام کردیا گیا تو سد ذرائع کے طور پران برتنوں کا استعمال بھی ممنوع کردیا۔ جسےبعد میں منسوخ کردیا کہ ان برتنوں کے استعمال میں اب کوئی حرج نہیں۔
(4) حدیث میں ہے کہ جس نے دانستہ نماز ترک کردی وہ کافر ہوگیا۔ (صحیح الترغیب والترھیب، الصلاة، حدیث:575) امام بخاری ؒ آیت کریمہ اور حدیث مذکور سے اس کے معنی متعین کرنا چاہتے ہیں کہ ترک صلاۃ سے انسان حقیقی کافر نہیں بن جاتا بلکہ اس شخص نے کافروں جیسا طرز عمل اختیار کرلیا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اپنے اس رویے پر غور کرے۔ والله أعلم۔