Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: The coitus interruptus)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5249.
سیدنا جابر ؓ سے ایک اور روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں ہم عزل کیا کرتے تھے جبکہ قرآن نازل ہو رہا تھا۔
تشریح:
(1) دور حاضر ميں عالمی سطح پر منصوبہ بندی کے متعلق بہت پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں عزل کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے، اس لیے ہم اس کی شرعی حیثیت واضح کرنا چاہتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ تحریک ضبط ولادت کی بنیاد روز اول ہی سے قوانین فطرت سے تصادم اور احکام شریعت سے بغاوت پر رکھی گئی ہے کیونکہ اس کے پس منظر میں یہ سوچ کار فرما ہے کہ زمینی پیداوار اور وسائل معاش انتہائی محدود ہیں اور اس کے مقابلے میں شرح پیدائش غیر محدود ہے، لہٰذا اس"بحران" پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ بچے کم ازکم پیدا کیے جائیں تاکہ معیار زندگی پست ہونے کے بجائے بلند ہو۔ لیکن قرآن کریم سرے سے اس انداز فکر ہی کو غلط قرار دیتا ہے اور بار بار اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ رزق دینا اللہ تعالیٰ کی ذمے داری ہے جس نے انسان کو پیدا کیا ہے، وہ صرف خالق ہی نہیں بلکہ رازق بھی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’زمین پر چلنے پھرنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔‘‘ (ھود: 6) انسان کا صرف اتنا کام ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے خزانوں سے اپنا رزق تلاش کرنے کے لیے محنت کرے۔ منصوبہ بندی کی یہ تحریک اس لیے بھی مزاج اسلام کے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ کو امت مسلمہ کی سلامتی سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ بے شمار دشمنوں میں گھرے ہوئے مٹھی بھر مسلمان ہر وقت خطرے میں پڑے رہیں، اس لیے وہ مسلمانوں کو اپنی افرادی قوت بڑھانے کے لیے بطور خاص حکم دیتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے: ’’تم نکاح کے لیے ایسی عورتوں کا انتخاب کرو جو زیادہ محبت کرنے کے ساتھ ساتھ بچے زیادہ جننے والی ہوں، قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت امت کی بنا پر دیگر تمام انبیاء سے بڑھ کو ہوں گے۔‘‘ (مسند أحمد: 158/3) یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا وجہ مجرد زندگی بسر کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (مسند أحمد: 158/3) اللہ تعالیٰ نے مرد کو کاشتکار اور عورت کو اس کی کھیتی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں۔‘‘ (البقرة: 223) کوئی بھی عقلمندی اپنی کھیتی کو برباد نہیں کرتا بلکہ اس سے پیدا وار لینے کے لیے اپنے وسائل بروئے کار لاتا ہے۔ لیکن منصوبہ بندی کی تحریک کا مقصد اس کھیتی کو بنجر اور بے کار کرنا ہے۔ دور جاہلیت میں اندیشۂ مفلسی اور حد سے بڑھے ہوئے جذبۂ غیرت کے پیش نظر ضبط ولادت کے لیے قتل کا طریقہ رائج تھا۔ اسلام نے آتے ہی اس ظالمانہ طریقے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ (2) مسلمانوں میں چند مخصوص حالات کے پیش نظر عزل کا رجحان پیدا ہوا جس کی درج ذیل و جوہات تھیں: ٭ آزاد عورت سے اس لیے عزل کیا جاتا تھا کہ ان کے نزدیک استقرارحمل (حمل ٹھرنے) سے شیر خوار بچے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ ٭لونڈی سے اس لیے کیا جاتا تھا کہ اس سے اولاد نہ ہو کیونکہ ام ولد ہونے کی صورت میں اسے فروخت نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسے اپنے پاس رکھنا ہوگا۔ چونکہ ابتدا میں عزل کے عدم جواز کے متعلق کتاب و سنت میں کوئی وضاحت نہ تھی، اس بنا پر بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر عزل کی ضرورت محسوس کی اور اس پر عمل بھی کیا جیسا کہ حضرت ابن عباس، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہم کے متعلق روایات میں ہے۔ (الموطأ للإمام مالك، الطلاق، باب العزل) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بعض صحابہ کے ذریعے سے اس کی خبر ہوئی تو آپ نے خاموشی اختیار فرمائی اور آپ کی خاموشی کو رضا پر محمول کرتے ہوئے اس پر عمل کیا گیا جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں عزل کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کی خبر پہنچی لیکن اس کے باوجود آپ نے ہمیں منع نہیں فرمایا۔ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3561 (1440)) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا توآپ نے مختلف حالات کے پیش نظر مختلف جوابات دیے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭اظہار تعجب کرتے ہوئے فرمایا: ’’کیا تم واقعی ایسا کرتے ہو؟ قیامت تک جو بچے پیدا ہونے والے ہیں وہ تو پیدا ہو کر رہیں گے۔‘‘ (صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5209) ٭’’اگر تم ایسا نہ کرو تو تمھارا کچھ نقصان نہیں ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3544 (1438))٭ راوی کہتا ہے کہ "لا علیکم" کے الفاظ نہی کے زیادہ قریب ہیں۔ ایک دوسرا راوی کہتا ہے کہ اس انداز گفتگو کے ذریعے سے آپ نے عزل کے ارتکاب سے ڈانٹا ہے۔ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3550 (1438)) ٭’’تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس نفس کو پیدا کرنا ہے وہ ضرور پیدا ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3544 (1438)) ٭ تم چاہو توعزل کرلو مگر جوبات تقدیر میں لکھی ہے وہ تو ہو کر رہے گی۔‘‘ (مسند أحمد: 312/3) ٭’’ایسا کرنا خفیہ طور پر اپنی اولاد کو زندہ درگور کرنا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3550 (1442)) ان روایات کے پیش نظر اہل علم صحابۂ کرام اسے مکروہ خیال کرتے تھے جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے۔ (جامع الترمذي، النکاح، حدیث: 1138) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی عزل کو اچھا خیال نہیں کرتے تھے۔ (الموطأ للإمام مالك، الطلاق، باب العزل) ان مختلف جوابات میں سے کسی ایک جواب کو چھانٹ کراس پرتحریک ضبط تولید کی بنیاد رکھنا عقل مندی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ اسے انفرادی طور پر کسی مجبوری کے پیش نظر ضبط ولادت کے لیے دلیل بنایا جا سکتا ہے لیکن لیکن ایک عمومی تحریک جاری کر دینے کا جواز اس سے کشید نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے نزدیک موجودہ تحریک اور عزل میں کئی طرح سے فرق کیا جا سکتا ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ اپنے مخصوص حالات کی بنا پر عزل کرنا میاں بیوی کا ایک انفرادی معاملہ ہے، مثلاً: حمل ٹھہرنے میں عورت کی جان کو خطرہ ہو یا اس کی صحت کو غیر معمولی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو ایسے حالات میں اگر کسی ماہر ایماندار ڈاکٹر کے مشورے سے ضبط ولادت کے لیے عزل یا کوئی اور جدید طریقہ اختیار کرلیا جائے تو جائز ہے اور میاں بیوی کا ایک پرائیویٹ معاملہ ہے لیکن ایک قومی پالیسی کے طور پر ان کے حقوق پر شبخون مارنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور نہ بطور فیشن ہی اسے عمل میں لانے کی گنجائش ہے۔ ٭عزل پر عمل کرنے سے حمل کا نہ ہونا یقینی نہیں بلکہ متصور ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک واقعے سے معلوم ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3556 (1439)) ان کے ہاں احتیاط کے باوجود حمل ٹھہرگیا تھا لیکن منصوبہ بندی کا جوطریق کار ہے اس کے مطابق عمل کرنے سے حمل کا نہ ہونا یقینی ہے، لہٰذا عزل کو منصوبہ بندی کے لیے دلیل کے طور پر پیش کرنا یا اس پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔ ٭ جس عورت سے عزل کیا گیا ہو اگر اس کا خاوند فوت ہو جائے یا اسے طلاق مل جائے تو طلب اولاد کے لیے اس سے شادی کی جا سکتی ہے، اس لیے کوئی رکاوٹ نہیں، جبکہ بعض حالات میں منصوبہ بندی پر عمل کرنے والی خاتون کے لیے یہ مشکل پیش آ سکتی ہے، یعنی اگر اس نے ہمیشہ کے لیے اولاد نہ ہونے والی ادویات یا آلات استعمال کیے ہیں تو اس سے اولاد کا طلبگار کیونکر شادی کرے گا۔ بہرحال منصوبہ بندی کے ناجائز اور حرام ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ اگر تحریک منصوبہ بندی پر عمل کرتے ہوئے وسیع پیمانے پر ایسے طریقوں کو لوگوں میں عام کر دیا جائے یا ایسے آلات و ادویات کو عام لوگوں کی دسترس تک پہنچا دیا جائے جن سے مرد جنسی بے راہ روی سے باہم لذت اندوز تو ہوتے رہیں مگر حمل ٹھہرنے کا اندیشہ نہ ہو جیسا کہ آج کل گلی کوچوں میں اس کے مراکز کھولے جا رہے ہیں اس کا انجام کثرت سے بے حیائی اور اخلاقی تباہی کی صورت میں رونما ہوگا جیسا کہ اب وہ ممالک اس تحریک منصوبہ بندی کے انجام بد سے چیخ رہے ہیں جن میں اس کا تجربہ کیا گیا ہے، لہٰذا ایک خود دار اور باغیرت مسلمان کے شایان شان نہیں کہ وہ اس بے دینی اور بے حیائی پر مبنی تحریک کو سہارا دے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وبا سے محفوظ رکھے۔آمين
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5008
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5209
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5209
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5209
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
تمہید باب
جب خاوند،بیوی سے ہم بستر ہو تو انزال کے وقت آلۂ تناسل باہر کرلینا تاکہ مادہ منویہ رحم میں نہ گرے اور بیوی حاملہ نہ ہو،اس عمل کو عزل کہا جاتا ہے۔ کچھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر عزل کے قائل اور فاعل تھے لیکن اسے بنیاد بنا کر ضبط ولادت کے متعلق ایک تحریک چلانا کسی صورت میں صحیح نہیں ہے۔اس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔وبالله التوفيق
سیدنا جابر ؓ سے ایک اور روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں ہم عزل کیا کرتے تھے جبکہ قرآن نازل ہو رہا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) دور حاضر ميں عالمی سطح پر منصوبہ بندی کے متعلق بہت پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں عزل کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے، اس لیے ہم اس کی شرعی حیثیت واضح کرنا چاہتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ تحریک ضبط ولادت کی بنیاد روز اول ہی سے قوانین فطرت سے تصادم اور احکام شریعت سے بغاوت پر رکھی گئی ہے کیونکہ اس کے پس منظر میں یہ سوچ کار فرما ہے کہ زمینی پیداوار اور وسائل معاش انتہائی محدود ہیں اور اس کے مقابلے میں شرح پیدائش غیر محدود ہے، لہٰذا اس"بحران" پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ بچے کم ازکم پیدا کیے جائیں تاکہ معیار زندگی پست ہونے کے بجائے بلند ہو۔ لیکن قرآن کریم سرے سے اس انداز فکر ہی کو غلط قرار دیتا ہے اور بار بار اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ رزق دینا اللہ تعالیٰ کی ذمے داری ہے جس نے انسان کو پیدا کیا ہے، وہ صرف خالق ہی نہیں بلکہ رازق بھی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’زمین پر چلنے پھرنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔‘‘ (ھود: 6) انسان کا صرف اتنا کام ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے خزانوں سے اپنا رزق تلاش کرنے کے لیے محنت کرے۔ منصوبہ بندی کی یہ تحریک اس لیے بھی مزاج اسلام کے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ کو امت مسلمہ کی سلامتی سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ بے شمار دشمنوں میں گھرے ہوئے مٹھی بھر مسلمان ہر وقت خطرے میں پڑے رہیں، اس لیے وہ مسلمانوں کو اپنی افرادی قوت بڑھانے کے لیے بطور خاص حکم دیتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے: ’’تم نکاح کے لیے ایسی عورتوں کا انتخاب کرو جو زیادہ محبت کرنے کے ساتھ ساتھ بچے زیادہ جننے والی ہوں، قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت امت کی بنا پر دیگر تمام انبیاء سے بڑھ کو ہوں گے۔‘‘ (مسند أحمد: 158/3) یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا وجہ مجرد زندگی بسر کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (مسند أحمد: 158/3) اللہ تعالیٰ نے مرد کو کاشتکار اور عورت کو اس کی کھیتی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں۔‘‘ (البقرة: 223) کوئی بھی عقلمندی اپنی کھیتی کو برباد نہیں کرتا بلکہ اس سے پیدا وار لینے کے لیے اپنے وسائل بروئے کار لاتا ہے۔ لیکن منصوبہ بندی کی تحریک کا مقصد اس کھیتی کو بنجر اور بے کار کرنا ہے۔ دور جاہلیت میں اندیشۂ مفلسی اور حد سے بڑھے ہوئے جذبۂ غیرت کے پیش نظر ضبط ولادت کے لیے قتل کا طریقہ رائج تھا۔ اسلام نے آتے ہی اس ظالمانہ طریقے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ (2) مسلمانوں میں چند مخصوص حالات کے پیش نظر عزل کا رجحان پیدا ہوا جس کی درج ذیل و جوہات تھیں: ٭ آزاد عورت سے اس لیے عزل کیا جاتا تھا کہ ان کے نزدیک استقرارحمل (حمل ٹھرنے) سے شیر خوار بچے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ ٭لونڈی سے اس لیے کیا جاتا تھا کہ اس سے اولاد نہ ہو کیونکہ ام ولد ہونے کی صورت میں اسے فروخت نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسے اپنے پاس رکھنا ہوگا۔ چونکہ ابتدا میں عزل کے عدم جواز کے متعلق کتاب و سنت میں کوئی وضاحت نہ تھی، اس بنا پر بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر عزل کی ضرورت محسوس کی اور اس پر عمل بھی کیا جیسا کہ حضرت ابن عباس، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہم کے متعلق روایات میں ہے۔ (الموطأ للإمام مالك، الطلاق، باب العزل) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بعض صحابہ کے ذریعے سے اس کی خبر ہوئی تو آپ نے خاموشی اختیار فرمائی اور آپ کی خاموشی کو رضا پر محمول کرتے ہوئے اس پر عمل کیا گیا جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں عزل کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کی خبر پہنچی لیکن اس کے باوجود آپ نے ہمیں منع نہیں فرمایا۔ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3561 (1440)) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا توآپ نے مختلف حالات کے پیش نظر مختلف جوابات دیے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭اظہار تعجب کرتے ہوئے فرمایا: ’’کیا تم واقعی ایسا کرتے ہو؟ قیامت تک جو بچے پیدا ہونے والے ہیں وہ تو پیدا ہو کر رہیں گے۔‘‘ (صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5209) ٭’’اگر تم ایسا نہ کرو تو تمھارا کچھ نقصان نہیں ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3544 (1438))٭ راوی کہتا ہے کہ "لا علیکم" کے الفاظ نہی کے زیادہ قریب ہیں۔ ایک دوسرا راوی کہتا ہے کہ اس انداز گفتگو کے ذریعے سے آپ نے عزل کے ارتکاب سے ڈانٹا ہے۔ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3550 (1438)) ٭’’تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس نفس کو پیدا کرنا ہے وہ ضرور پیدا ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3544 (1438)) ٭ تم چاہو توعزل کرلو مگر جوبات تقدیر میں لکھی ہے وہ تو ہو کر رہے گی۔‘‘ (مسند أحمد: 312/3) ٭’’ایسا کرنا خفیہ طور پر اپنی اولاد کو زندہ درگور کرنا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3550 (1442)) ان روایات کے پیش نظر اہل علم صحابۂ کرام اسے مکروہ خیال کرتے تھے جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے۔ (جامع الترمذي، النکاح، حدیث: 1138) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی عزل کو اچھا خیال نہیں کرتے تھے۔ (الموطأ للإمام مالك، الطلاق، باب العزل) ان مختلف جوابات میں سے کسی ایک جواب کو چھانٹ کراس پرتحریک ضبط تولید کی بنیاد رکھنا عقل مندی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ اسے انفرادی طور پر کسی مجبوری کے پیش نظر ضبط ولادت کے لیے دلیل بنایا جا سکتا ہے لیکن لیکن ایک عمومی تحریک جاری کر دینے کا جواز اس سے کشید نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے نزدیک موجودہ تحریک اور عزل میں کئی طرح سے فرق کیا جا سکتا ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ اپنے مخصوص حالات کی بنا پر عزل کرنا میاں بیوی کا ایک انفرادی معاملہ ہے، مثلاً: حمل ٹھہرنے میں عورت کی جان کو خطرہ ہو یا اس کی صحت کو غیر معمولی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو ایسے حالات میں اگر کسی ماہر ایماندار ڈاکٹر کے مشورے سے ضبط ولادت کے لیے عزل یا کوئی اور جدید طریقہ اختیار کرلیا جائے تو جائز ہے اور میاں بیوی کا ایک پرائیویٹ معاملہ ہے لیکن ایک قومی پالیسی کے طور پر ان کے حقوق پر شبخون مارنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور نہ بطور فیشن ہی اسے عمل میں لانے کی گنجائش ہے۔ ٭عزل پر عمل کرنے سے حمل کا نہ ہونا یقینی نہیں بلکہ متصور ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک واقعے سے معلوم ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3556 (1439)) ان کے ہاں احتیاط کے باوجود حمل ٹھہرگیا تھا لیکن منصوبہ بندی کا جوطریق کار ہے اس کے مطابق عمل کرنے سے حمل کا نہ ہونا یقینی ہے، لہٰذا عزل کو منصوبہ بندی کے لیے دلیل کے طور پر پیش کرنا یا اس پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔ ٭ جس عورت سے عزل کیا گیا ہو اگر اس کا خاوند فوت ہو جائے یا اسے طلاق مل جائے تو طلب اولاد کے لیے اس سے شادی کی جا سکتی ہے، اس لیے کوئی رکاوٹ نہیں، جبکہ بعض حالات میں منصوبہ بندی پر عمل کرنے والی خاتون کے لیے یہ مشکل پیش آ سکتی ہے، یعنی اگر اس نے ہمیشہ کے لیے اولاد نہ ہونے والی ادویات یا آلات استعمال کیے ہیں تو اس سے اولاد کا طلبگار کیونکر شادی کرے گا۔ بہرحال منصوبہ بندی کے ناجائز اور حرام ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ اگر تحریک منصوبہ بندی پر عمل کرتے ہوئے وسیع پیمانے پر ایسے طریقوں کو لوگوں میں عام کر دیا جائے یا ایسے آلات و ادویات کو عام لوگوں کی دسترس تک پہنچا دیا جائے جن سے مرد جنسی بے راہ روی سے باہم لذت اندوز تو ہوتے رہیں مگر حمل ٹھہرنے کا اندیشہ نہ ہو جیسا کہ آج کل گلی کوچوں میں اس کے مراکز کھولے جا رہے ہیں اس کا انجام کثرت سے بے حیائی اور اخلاقی تباہی کی صورت میں رونما ہوگا جیسا کہ اب وہ ممالک اس تحریک منصوبہ بندی کے انجام بد سے چیخ رہے ہیں جن میں اس کا تجربہ کیا گیا ہے، لہٰذا ایک خود دار اور باغیرت مسلمان کے شایان شان نہیں کہ وہ اس بے دینی اور بے حیائی پر مبنی تحریک کو سہارا دے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وبا سے محفوظ رکھے۔آمين
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور عمرو بن دینار نے بیان کیا عطاء سے انہوں نے حضرت جابر ؓ سے کہ قرآن نازل ہو رہا تھا۔ اور ہم عزل کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
We used to practice coitus interrupt us while the Qur'an was being revealed. Jabir added: We used to practice coitus interrupt us during the lifetime of Allah's Messenger (ﷺ) while the Qur'an was being Revealed.