قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ (بَابٌ: الصَّلاَةُ كَفَّارَةٌ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

525. حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ الأَعْمَشِ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَقِيقٌ، قَالَ: سَمِعْتُ حُذَيْفَةَ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ يَحْفَظُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الفِتْنَةِ، قُلْتُ أَنَا كَمَا قَالَهُ: قَالَ: إِنَّكَ عَلَيْهِ أَوْ عَلَيْهَا لَجَرِيءٌ، قُلْتُ: «فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ، تُكَفِّرُهَا الصَّلاَةُ وَالصَّوْمُ وَالصَّدَقَةُ، وَالأَمْرُ وَالنَّهْيُ»، قَالَ: لَيْسَ هَذَا أُرِيدُ، وَلَكِنِ الفِتْنَةُ الَّتِي تَمُوجُ كَمَا يَمُوجُ البَحْرُ، قَالَ: لَيْسَ عَلَيْكَ مِنْهَا بَأْسٌ يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، إِنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا، قَالَ: أَيُكْسَرُ أَمْ يُفْتَحُ؟ قَالَ: يُكْسَرُ، قَالَ: إِذًا لاَ يُغْلَقَ أَبَدًا، قُلْنَا: أَكَانَ عُمَرُ يَعْلَمُ البَابَ؟ قَالَ: نَعَمْ، كَمَا أَنَّ دُونَ الغَدِ اللَّيْلَةَ، إِنِّي حَدَّثْتُهُ بِحَدِيثٍ لَيْسَ بِالأَغَالِيطِ فَهِبْنَا أَنْ نَسْأَلَ حُذَيْفَةَ، فَأَمَرْنَا مَسْرُوقًا فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: البَابُ عُمَرُ

مترجم:

525.

حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ہم حضرت عمر ؓ  کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انھوں نے فرمایا: تم میں سے کس کو فتنے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا فرمان یاد ہے؟ میں نے عرض کیا: مجھے اسی طرح یاد ہے جس طرح آپ نے فرمایا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: بلاشبہ تم ہی اس قسم کی بات کرنے کے متعلق جراءت کر سکتے ہو۔ میں نے عرض کیا: (آپ نے فرمایا تھا: ) انسان کا وہ فتنہ جو اس کے گھر بار، مال و اولاد اور اس کے ہمسایوں میں ہوتا ہے، اسے تو نماز، روزہ، صدقہ و خیرات، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مٹا دیتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میرا مقصد اس قسم کے فتنے کے متعلق معلومات حاصل کرنا نہیں بلکہ میں اس فتنے کے متعلق دریافت کرنا چاہتا ہوں جو سمندر کی طرح موجزن ہو گا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے عرض کیا: اے امیر المومنین! اس فتنے سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں، کیونکہ اس کے اور آپ کے درمیان ایک بند دروازہ حائل ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اچھا یہ بتاؤ کہ وہ دروازہ کھولا جائے یا توڑا جائے گا؟ حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا: وہ توڑا جائے گا۔ اس پر حضرت عمر ؓ  گویا ہوئے: تو پھر کبھی بند نہ ہو گا۔ ہم لوگوں نے (حضرت حذیفہ ؓ سے) کہا: آیا حضرت عمر ؓ دروازے کو جانتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں! جیسے کل آنے والے دن سے پہلے رات آتی ہے۔ میں نے ان سے ایسی حدیث بیان کی جو چیستان نہ تھی۔ ہم لوگ حضرت حذیفہ ؓ سے اس دروازے کے متعلق سوال کرنے سے مرعوب تھے، لہذا ہم نے (اپنے ساتھی) مسروق سے کہا، چنانچہ انھوں نے حذیفہ ؓ سے دروازے کی بابت پوچھا تو انھوں نے فرمایا: وہ دروازہ خود حضرت عمر ؓ تھے۔