تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ یکبارگی تین طلاقیں دی جا سکتی ہیں، لیکن کیا تینوں نافذ ہوں گی یا ایک؟ اس حدیث سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا۔ ہمارے رجحان کے مطابق حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے جذبات میں یہ کام کر ڈالا۔ شاید انھیں معلوم نہ تھا کہ خود لعان کرنے سے ہی خاوند اور بیوی کے درمیان جدائی ہو جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اس وجہ سے انکار نہیں کیا کہ لعان کرنے سے وہ عورت اس کی بیوی نہیں رہتی، لہٰذا تین طلاقیں کیا اگر وہ ہزار طلاق بھی دے دے تو بھی بےسود اور بے کار ہیں ہاں، اگر لعان نہ ہوتا تو آپ اس کا ضرور انکار کرتے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دیں تو آپ بہت ناراض ہوئے اور آپ نے غصے ہو کر فرمایا: ’’میری موجودگی میں تم لوگوں نے اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیا ہے۔‘‘ آپ کی برہمی کو دیکھ کرایک آدمی نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ مجھے اجازت دیں میں اسے قتل کر دوں۔ (سنن النسائي، الطلاق، حدیث: 3430)
(2)جو حضرات اس حدیث سے یہ مسئلہ کشید کرتے ہیں کہ ایک ہی بار اکٹھی طلاقیں دینے سے تینوں واقع ہو جاتی ہیں ان کا یہ موقف انتہائی محل نظر ہے۔ والله اعلم