تشریح:
(1) اس حدیث سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس نے بیک وقت تین طلاقیں دی تھیں، بلکہ متبادر یہی ہے کہ اس نے وقفے وقفے سے تین طلاقیں دی تھیں کیونکہ یکبارگی تین طلاقیں دینے سے تو صرف ایک رجعی طلاق واقع ہوتی ہے جیسا کہ آئندہ ثابت ہوگا۔
(2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ تین طلاقیں جن سے بینونت کبریٰ عمل میں آتی ہے،ان میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے،اگرچہ بہتر یہ ہے کہ ایک طلاق دے کر اسے چھوڑ دے یہاں تک کہ وہ اپنی عدت پوری کرےتاہم وقفے وقفے سے طلاق کا نصاب پورا کیا جاسکتا ہے۔تین طلاقوں کا مسئلہ"مسئلہ طلاق انتہائی نزاکت کا حامل ہے لیکن ہم اس سلسلے میں بہت غفلت کا شکار ہیں۔جب بھی گھر میں کوئی ناچاقی سنگین صورت حال اختیار کرتی ہے تو ہم غصے میں آکر فوراً طلاق،طلاق، طلاق، کہہ دیتے ہیں یا طلاق ثلاثہ ایک ہی کاغذ پر لکھ کر اسے اپنے آپ پر حرام کرلیتے ہیں،پھر جب ہوش آتا ہے تو در،درکی خاک چھاننا شروع کردیتے ہیں۔کچھ اہل علم کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ بیک وقت دی ہوئی تین طلاقیں تینوں ہی نافذ ہوجاتی ہیں اور ہمیشہ کے لیے طلاق دینے والے کی بیوی اس پر حرام ہوجاتی ہے،پھر اس بیوی کو اس کے لیے حلال کرنے کی خاطر ننگ اخلاق،حیاسوز، بدنام زمانہ حلالہ کا مشورہ دیا جاتا ہے،جو نہ صرف بے شرمی اور بےحیائی ہے بلکہ مخالفین اسلام کو اس قسم کی ایمان شکن حرکات کی آڑ میں اسلام پر حملہ آور ہونے کا موقع ملتا ہے۔اگر سوچہ جائے تو حلالہ تو طلاق دینے والے کا ہونا چاہیے تھا جس نے یہ حرکت کی ہے لیکن ہمارے ہاں عورت کو تختۂ مشق بنایا جاتا ہے اور اس کی عصمت وعزت کو داغدار کیا جاتا ہے،جبکہ حدیث میں حلالہ کرنے اور جس کے لیے حلالہ کیا جاتا ہے دونوں کو ملعون کہا گیا ہے۔ (سنن ابی داود، النکاح، حدیث: 2076) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ نکالنے والے کو کرائے کا سانڈ کہا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، النکاح، حدیث: 1936) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا کہ ایسے حلالہ کرنے والے اور نکلوانے والے دونوں کو زنا کی سزا دی جائے گی۔(السنن الکبریٰ للبیہقی: 7/337) بعض اوقات یہ بے بس لیکن غیرت مند عورت اس ظلم وزیادتی کا طلاق دینے والے اور اپنے رشتے داروں سے یوں انتقام لیتی ہے کہ رات ہی رات وہ حلالہ کرنے والے سے سیٹ ہوگئی اور اس نئے جوڑے نے عہدوپیمان کرلیا اور اپنے نکاح کو پائیدار کرلیا۔اس طرح حلالہ نکلوانے والے کی سب امیدیں خاک میں ملادیں۔ایسے واقعات آئے دن اخبارات ورسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔بہرحال بیک وقت تین طلاقیں دینے سے تیر کمان سے نکل جاتا ہے اور ٹھکانے پر بیٹھ جاتا ہے۔کتاب وسنت کے مطابق ایک مجلس کی دی ہوئی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق شمار ہوتی ہے بشرطیکہ طلاق دینے کا پہلا یا دوسرا موقع ہو،اب دوران عدت میں خاوند کو بلا تجدید نکاح رجوع کا حق ہے اور عدت گزارنے کے بعد بھی نئے نکاح سے رجوع ہوسکتا ہے۔اس نئے نکاح کی چار شرائط حسب ذیل ہیں:٭عورت کے سرپرست اس کی اجازت دیں۔٭عورت بھی طلاق دینے والے کے ہاں رہنے پر آمادہ ہو۔٭حق مہر بھی نئے سرے سے مقرر کیا جائے۔٭گواہ بھی موجود ہوں۔اگرچہ اس انداز سے طلاق دینا اسلام میں انتہائی ناپسندیدہ حرکت ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دےدیں،آپ کو جب اس بات کا علم ہوا تو غصے کی وجہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا: "تم نے میری زندگی میں اللہ کے احکام سے کھیلنا شروع کردیا ہے۔"آپ کی ناراضی کو دیکھ کر ایک شخص نے کہا:اللہ کے رسول!آپ مجھے اجازت دیں تاکہ میں اسےقتل کردوں ۔ (سنن النسائی، الطلاق، حدیث: 3430)اس انداز سے دی ہوئی طلاق کے رجعی ہونے کے دلائل حسب ذیل ہیں:٭حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک،حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانۂخلافت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دوسالہ دور حکومت میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا۔اس کے بعد لوگوں نے اس گنجائش سے غلط فائدہ اٹھانا شروع کردیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تأدیبی طور پر تین طلاقیں نافذ کرنے کا حکم صادر فرمایا۔(صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 3673 (1472))واضح رہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ اقدام تعزیری تھا کیونکہ آپ عمر کے آخری حصے میں اپنے اس فیصلے پر اظہار افسوس فرمایا کرتے تھے جیسا کہ حافظ ابن قیم نے محدث ابوبکر اسماعیلی کی تصنیف، مسندعمر،کے حوالے سے لکھا ہے۔(إغاثۃ اللھفان: 1/336)٭حضرت رکانہ بن عبدیزید رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو طلاق دےدی۔اس کے بعد انھیں اپنی بیوی کے فراق میں انتہائی افسوس ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب معاملہ پہنچا تو آپ نے انھیں بلایا اور دریافت فرمایا: "طلاق کیسے دی تھی؟" انھوں نے کہا:ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ تو ایک رجعی طلاق ہے اگر چاہو تو رجوع کرلو۔"چنانچہ انھوں نے رجوع کرکے دوبارہ اپنا گھر آباد کرلیا۔(مسند احمد: 1/265)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مسئلۂ طلاق ثلاثہ کے متعلق ایک فیصلہ کن نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہے جس کی اور کوئی تأویل نہیں ہوسکتی۔(فتح الباری: 9/450)قرآن وحدیث کا یہی فیصلہ ہے کہ بیک وقت دی گئی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق ہے،اس کے علاوہ ہمارے ہاں رائج الوقت عائلی قوانین اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی یہ فتوی دیا جاتا ہے۔والله المستعان.واضح رہے کہ ہمارے ہاں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرنے پر اجماع کا دعوی کیا جاتا ہے،حالانکہ یہ دعوی بے بنیاد ہے۔علمی دنیا میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ تطلیق ثلاثہ کے متعلق مندرجہ ذیل چارقسم کے گروہ پائے جاتے ہیں:٭ پہلا گروہ سنت نبوی کو ہر زمانے میں معمول بہ جانتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو ہنگامی اور تعزیزی خیال کرتا ہے۔ ان کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک رجعی شمار ہوتی ہے جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے کتاب وسنت سے ثابت کیا ہے۔٭دوسرا گروہ کہتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ واقعی دائمی ہے۔ان کے نزدیک ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاقیں تینوں ہی نافذ العمل ہیں۔پھر ان کی طرف سے بدنام زمانہ حلالہ کی نشاندہی کی جاتی ہے۔٭تیسرے گروہ کے نزدیک اس انداز سے دی ہوئی تین طلاقیں فضول اور خلاف سنت ہیں،لہٰذا ایک واقع نہیں ہوگی۔ان کے ہاں ایسا کرنا بدعت ہے اور ہر بدعت رد کے قابل ہوتی ہے۔٭کچھ قلیل تعداد میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے نزدیک ایک غیر مدخولہ کو تین طلاقیں دی جائیں تو ایک شمار ہوگی اور اگر مدخولہ کو دی جائیں تو تینوں نافذ ہوں گی۔غور فرمائیں کہ جسے مسئلے میں اتنا اختلاف ہو کہ اس میں چار گروہ پائے جائیں اسے کس طرح اجماعی قرار دیا جاسکتا ہے!ہمارے رجحان کے مطابق ایک مجلس میں تین طلاقیں دینا دور جاہلیت کی یادگار ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پھر لوٹ آئی ہے۔اس کا دروازہ سختی سے بند کرنا چاہیے اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے بدنی سزا ہونی چاہیے تاکہ حلالے جیسے گندے اور بدترین اقدام کی حوصلہ شکنی ہو۔ والله اعلم