تشریح:
(1) جو حضرات کہتے ہیں کہ بیوی کو خود پر حرام قرار دینے سے کچھ لازم نہیں آتا انھوں نے اسی آیت سے دلیل لی ہے۔لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موقف کی تردید کی ہے کہ یہ آیت شہد کے حرام کرنے پر نازل ہوئی تھی،عورت کے حرام کرنے پر نہیں۔(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طبعاً بہت نفاست پسند تھے۔آپ کو بہت نفرت تھی کہ آپ کے بدن یا کپڑوں سے کسی قسم کی بو آئے،اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات خوشبو سے معطر رہتے تھے۔شہد کو حرام کردینے کی بھی یہی وجہ تھی۔چونکہ آپ نے قسم بھی اٹھائی تھی جیسا کہ ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے،(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4912) اس لیے آپ کو قسم کا کفارہ دینے کے متعلق کہا گیا۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا موقف یہ تھا کہ بیوی کو حرام کرلینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی بلکہ قسم کا کفارہ دینا ہوگا جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا: میں نے اپنی بیوی کو اپنے آپ پر حرام کرلیا ہے تو انھوں نے فرمایا: تو غلط کہتا ہے۔وہ تجھ پر حرام نہیں ہوئی،پھر آپ نے سورۂ تحریم کی پہلی آیت پڑھی اور فرمایا کہ تجھے ایک غلام آزاد کرنا ہوگا۔(سنن النسائی، الطلاق، حدیث: 3449)