تشریح:
(1) اگر کسی کے دل میں طلاق دینے کا خیال پیدا ہوا تو محض خیال و وسوسے سے طلاق واقع نہیں ہو گی۔ اس قسم کی طلاق کو خیالی طلاق کہتے ہیں۔ اس قسم کی طلاق واقع ہونے کی دوشرطیں ہیں: ٭دل کے خیالات کو کاغذ پر تحریر کر دے، یعنی خیالات کو عمل میں لے آئے۔ ٭دل کے وسوسے کو زبان پر لے آئے، یعنی انھیں کلام کی شکل دے دے۔ اگر طلاق کو ہوا یا پانی پر لکھا تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا کیونکہ ہوا یا پانی پر لکھنے کی حیثیت بھی خیالات و وساوس کی ہے۔
(2) حدیث النفس، وسوسے کو کہتے ہیں، اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہوتا، البتہ ابن سیرین اس قسم کی طلاق واقع ہونے کے قائل ہیں۔ مذکورہ حدیث سے ان حضرات کی تردید مقصود ہے۔ (فتح الباري: 488/9)