تشریح:
(1) واقعہ اس طرح ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ناراضی کا اظہار فرمایا کہ اللہ کہ دشمن کی بیٹی اور اللہ کے رسول کی لخت جگر ایک گھر میں اکٹھی نہیں رہ سکتیں۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دوسرے نکاح کا ارادہ ترک کر دیا۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی اس عقد ثانی پر راضی نہ تھیں، اس بنا پر سیدہ فاطمہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہا کے درمیان اختلاف متوقع تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ آنے والی ناچاقی کا دفاع کیا کہ میں اس کی اجازت نہیں دیتا ہوں تاکہ شروع ہی سے خلع کا سد باب ہو۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس مناسبت کو عمدہ قرار دیا ہے۔ (فتح الباري: 500/9)
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقد ثانی کی اجازت نہ دے کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اشارہ دیا کہ وہ نکاح نہ کرے، جب عدم نکاح کا اشارہ دیا جا سکتا ہے تو نکاح کو ختم کرنا، جو خلع کی صورت میں ہوتا ہے، اس کا بھی بوقت ضرورت اشارہ دیا جا سکتا ہے۔