Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: The times of As-Salat (the prayers) and the superiority of offering Salat (prayers) in time)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کہ مسلمانوں پر نماز وقت مقررہ میں فرض ہے، یعنی اللہ نے ان کے لیے نمازوں کے اوقات مقرر کر دئیے ہیں۔
528.
حضرت ابن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے ایک دن (عصر کی) نماز کو مؤخر کر دیا تو ان کے پاس حضرت عروہ بن زبیر ؓ آئے اور ان سے کہا کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ جب عراق میں (گورنر) تھے تو ایک دن ان سے نماز میں کچھ تاخیر ہو گئی۔ حضرت ابومسعود انصاری ؓ ان کے پاس آئے اور ان سے کہا: اے مغیرہ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ایک دن حضرت جبرئیل ؑ نازل ہوئے اور انھوں نے نماز پڑھی تو رسول اللہ ﷺ نے بھی ان کے ساتھ نماز ادا کی، پھر دوسری نمازی کا وقت ہوا تو حضرت جبرئیل ؑ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی، پھر تیسری نماز کے وقت حضرت جبرئیل ؑ کی معیت میں رسول اللہ ﷺ نے نماز ادا کی، پھر چوتھی نماز کے وقت بھی دونوں نے اکٹھے نماز پڑھی، پھر پانچویں نماز کے وقت حضرت جبرئیل ؑ نے نماز پڑھی تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ ہی نماز ادا کی، پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اسی طرح نماز ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے عروہ ؓ سے فرمایا: آپ ذرا سوچ سمجھ کر بیان کریں، کیا واقعی حضرت جبریل ؑ نے رسول اللہ ﷺ کے لیے اوقات نماز کی نشاندہی کی تھی؟ حضرت عروہ ؓ نے جواب دیا کہ حضرت بشیر بن ابومسعود اسی طرح اپنے والد ابومسعود ؓ سے بیان کرتے تھے۔
تشریح:
(1) کتاب اور باب میں لفظی تکرار نہیں ہے، کیونکہ کتاب مواقیت الصلاة میں احکام اوقات کا بیان ہے کہ کن اوقات میں نماز پڑھنا مکروہ، کن میں افضل اور کن میں جائز ہے، جبکہ باب مواقیت الصلاة میں صرف ان اوقات کا بیان ہے جن میں نماز پڑھنا افضل ہے۔ (2) امرائے بنو امیہ نماز دیر سے پڑھنے کہ عادی تھے، لیکن حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کو اللہ تعالیٰ نے اس عادت سے محفوظ رکھا۔ اتفاقاً ایک دن عصر کی نماز میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ (صحیح البخاري، بدءالخلق، حدیث:3221) اس تاخیر کی وجہ بھی ایک روایت میں بیان ہوئی ہے کہ آپ مسلمانوں کے اخلاق واعمال کی اصلاح کے لیے منبر پر تشریف فرما ہوئے اور وعظ کہتے ہوئے نماز عصر میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ (سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث:394) تاہم جب حضرت عروہ بن زبیر نے مذکورہ حدیث سنائی تو نمازوں کے اوقات کی اس قدر اہمیت پر حیران رہ گئے اور حضرت عروہ سے سوال کیا کہ واقعی حضرت جبرائيل ؑ نے ان اوقات کے تعین کےلیے خود عملی طور پر رسول اللہ ﷺ کو تعلیم دی ہے؟ چنانچہ حضرت عروۃ نے باسند حدیث کا حوالہ دیا۔ اس کے بعد پابندئ اوقات کا یہ عالم تھا کہ پھر کبھی آپ نے نماز اداکرنے میں تاخیر نہیں کی، جیسا کہ روایات میں اس کی وضاحت ہے۔ (فتح الباري:9/2) (3) حضرت ابو مسعود ؓ کا نام عقبہ بن عمرو انصاری ہے جنھوں نے معرکہ بدر میں شرکت فرمائی۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا امتیازی وصف یہ تھا کہ حاکم و محکوم کے مناصب سے بالاتر ہوکر ناصحانہ انداز میں فریضہ دعوت واصلاح سرانجام دینے کے خوگر تھے، چنانچہ حضرت امیر معاویہ ؓ کی طرف سے متعین کوفے کے گورنر حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے ایک مرتبہ عصر کی نماز میں کچھ تاخیر کی تو حضرت مسعود انصاری ؓ نے فورا ان کی اصلاح فرماتے ہوئے مذکورہ حدیث بیان کی، اور یہی جذبہ حضرت عروہ بن زبیر میں موجزن تھا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4007)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
517
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
521
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
521
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
521
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
آیت کریمہ میں دوباتوں کا بیان ہے: ایک یہ کہ نماز فرض ہے۔دوسرے یہ کہ اسے پابندئ وقت کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے،یعنی انھیں ان کے مقرر کردہ اوقات ہی میں ادا کیا جائے۔
کہ مسلمانوں پر نماز وقت مقررہ میں فرض ہے، یعنی اللہ نے ان کے لیے نمازوں کے اوقات مقرر کر دئیے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے ایک دن (عصر کی) نماز کو مؤخر کر دیا تو ان کے پاس حضرت عروہ بن زبیر ؓ آئے اور ان سے کہا کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ جب عراق میں (گورنر) تھے تو ایک دن ان سے نماز میں کچھ تاخیر ہو گئی۔ حضرت ابومسعود انصاری ؓ ان کے پاس آئے اور ان سے کہا: اے مغیرہ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ایک دن حضرت جبرئیل ؑ نازل ہوئے اور انھوں نے نماز پڑھی تو رسول اللہ ﷺ نے بھی ان کے ساتھ نماز ادا کی، پھر دوسری نمازی کا وقت ہوا تو حضرت جبرئیل ؑ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی، پھر تیسری نماز کے وقت حضرت جبرئیل ؑ کی معیت میں رسول اللہ ﷺ نے نماز ادا کی، پھر چوتھی نماز کے وقت بھی دونوں نے اکٹھے نماز پڑھی، پھر پانچویں نماز کے وقت حضرت جبرئیل ؑ نے نماز پڑھی تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ ہی نماز ادا کی، پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اسی طرح نماز ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے عروہ ؓ سے فرمایا: آپ ذرا سوچ سمجھ کر بیان کریں، کیا واقعی حضرت جبریل ؑ نے رسول اللہ ﷺ کے لیے اوقات نماز کی نشاندہی کی تھی؟ حضرت عروہ ؓ نے جواب دیا کہ حضرت بشیر بن ابومسعود اسی طرح اپنے والد ابومسعود ؓ سے بیان کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) کتاب اور باب میں لفظی تکرار نہیں ہے، کیونکہ کتاب مواقیت الصلاة میں احکام اوقات کا بیان ہے کہ کن اوقات میں نماز پڑھنا مکروہ، کن میں افضل اور کن میں جائز ہے، جبکہ باب مواقیت الصلاة میں صرف ان اوقات کا بیان ہے جن میں نماز پڑھنا افضل ہے۔ (2) امرائے بنو امیہ نماز دیر سے پڑھنے کہ عادی تھے، لیکن حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کو اللہ تعالیٰ نے اس عادت سے محفوظ رکھا۔ اتفاقاً ایک دن عصر کی نماز میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ (صحیح البخاري، بدءالخلق، حدیث:3221) اس تاخیر کی وجہ بھی ایک روایت میں بیان ہوئی ہے کہ آپ مسلمانوں کے اخلاق واعمال کی اصلاح کے لیے منبر پر تشریف فرما ہوئے اور وعظ کہتے ہوئے نماز عصر میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ (سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث:394) تاہم جب حضرت عروہ بن زبیر نے مذکورہ حدیث سنائی تو نمازوں کے اوقات کی اس قدر اہمیت پر حیران رہ گئے اور حضرت عروہ سے سوال کیا کہ واقعی حضرت جبرائيل ؑ نے ان اوقات کے تعین کےلیے خود عملی طور پر رسول اللہ ﷺ کو تعلیم دی ہے؟ چنانچہ حضرت عروۃ نے باسند حدیث کا حوالہ دیا۔ اس کے بعد پابندئ اوقات کا یہ عالم تھا کہ پھر کبھی آپ نے نماز اداکرنے میں تاخیر نہیں کی، جیسا کہ روایات میں اس کی وضاحت ہے۔ (فتح الباري:9/2) (3) حضرت ابو مسعود ؓ کا نام عقبہ بن عمرو انصاری ہے جنھوں نے معرکہ بدر میں شرکت فرمائی۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا امتیازی وصف یہ تھا کہ حاکم و محکوم کے مناصب سے بالاتر ہوکر ناصحانہ انداز میں فریضہ دعوت واصلاح سرانجام دینے کے خوگر تھے، چنانچہ حضرت امیر معاویہ ؓ کی طرف سے متعین کوفے کے گورنر حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے ایک مرتبہ عصر کی نماز میں کچھ تاخیر کی تو حضرت مسعود انصاری ؓ نے فورا ان کی اصلاح فرماتے ہوئے مذکورہ حدیث بیان کی، اور یہی جذبہ حضرت عروہ بن زبیر میں موجزن تھا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4007)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کی وضاحت: "بلاشبہ اہل ایمان پر پابندی وقت کے ساتھ نماز کا ادا کرنا فرض ہے۔"موقوتا کے معنی ہیں: وقت مقررہ، یعنی اللہ نے ان کے لیے نمازوں کے اوقات مقرر کر دیے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میں نے امام مالک رحمہ اللہ کو پڑھ کر سنایا ابن شہاب کی روایت سے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے ایک دن (عصر کی) نماز میں دیر کی، پس عروہ بن زبیر ؓ کے پاس تشریف لے گئے، اور انھوں نے بتایا کہ (اسی طرح) مغیرہ بن شعبہ ؓ نے ایک دن (عراق کے ملک میں) نماز میں دیر کی تھی جب وہ عراق میں (حاکم) تھے۔ پس ابومسعود انصاری (عقبہ بن عمر) ان کی خدمت میں گئے۔ اور فرمایا، مغیرہ ؓ! آخر یہ کیا بات ہے، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جب جبرئیل ؑ تشریف لائے تو انھوں نے نماز پڑھی اور رسول کریم ﷺ نے بھی نماز پڑھی، پھر جبرئیل ؑ نے نماز پڑھی تو نبی ﷺ نے بھی نماز پڑھی، پھر جبرئیل ؑ نے نماز پڑھی تو نبی ﷺ نے بھی نماز پڑھی، پھر جبرئیل ؑ نے کہا کہ میں اسی طرح حکم دیا گیا ہوں۔ اس پر حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ نے عروہ سے کہا، معلوم بھی ہے آپ کیا بیان کر رہے ہیں؟ کیا جبرئیل ؑ نے نبی ﷺ کو نماز کے اوقات (عمل کر کے) بتلائے تھے۔ عروہ نے کہا، کہ ہاں اسی طرح بشیر بن ابی مسعود ؓ اپنے والد کے واسطہ سے بیان کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت إمام الدنیا في الحدیث امام بخاری ؒ نے اپنی پاکیزہ کتاب کے پارہ سوم کو کتاب مواقیت الصلوٰة سے شروع فرمایا، آگے باب مواقیت الصلوٰة الخ منعقد کیا، ان ہر دو میں فرق یہ کہ کتاب میں مطلق اوقات مذکور ہوں گے، خواہ فضیلت کے اوقات ہوں یا کراہیت کے اورباب میں وہ وقت مذکور ہورہے ہیں جن میں نماز پڑھنا افضل ہے۔ مواقیت کی تحقیق اورآیت کریمہ مذکورہ کی تفصیل میں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مبارک پوری ؒ تحریر فرماتے ہیں:''مواقيت الصلاة، جمع ميقات وهو مفعال من الوقت. والمراد به الوقت الذي عينه الله لأداء هذه العبادة، وهو القدر المحدود للفعل من الزمان. قال تعالى: {إن الصلاة كانت على المؤمنين كتاباً موقوتاً} [103:4] أي: مفروضاً في أوقات معينة معلومة، فأجمل ذكر الأوقات في هذه الآية، وبينها في مواضع أخر من الكتاب من غير ذكر تحديد أوائلها وأواخرها، وبين على لسان الرسول - صلى الله عليه وسلم - تحديدها ومقاديرها الخ.''(مرعاة: جلد 1، ص: 383)’’یعنی لفظ مواقیت کا ماہ وقت ہے اوروہ مفعال کے وزن پر ہے اوراس سے مراد وقت ہے۔ جسے اللہ نے اس عبادت کی ادائیگی کے لیے متعین فرمادیا اوروہ زمانہ کاایک محدود حصہ ہے۔ اللہ نے فرمایانماز کہ ایمان والوں پر وقت مقررہ پر فرض کی گئی ہے۔ اس آیت میں اوقات کامجمل ذکر ہے، قرآن پاک کے دیگر مقامات پر کچھ تفصیلات بھی مذکورہیں، مگروقتوں کا اول وآخر اللہ نے اپنے رسول ﷺ کی زبان مبارک ہی سے بیان کرایاہے۔‘‘ آیت کریمہ:﴿ أقم الصلوٰة طرفي النهار وزلفا من اللیل﴾ میں فجر اورمغرب اور عشاء کی نمازیں مذکور ہیں۔ آیت کریمہ ﴿أقم الصلوٰۃ لدلوك الشمس﴾ میں ظہر وعصر کی طرف اشارہ ہے۔ ﴿إلی غسق الليل﴾ میں مغرب اورعشاء مذکورہیں ﴿وقرآن الفجر﴾ میں نماز فجر کا ذکر ہے۔ آیت کریمہ ﴿فسبحان اللہ حین تمسون﴾ میں مغرب اورعشاء مذکور ہیں ﴿وحین تصبحون﴾ میں صبح کا ذکر ہے۔ ﴿وعشیا﴾ میں عصر اور ﴿حین تظهرون﴾ میں ظہر اورآیت شریفہ ﴿وسبح بحمدربك قبل طلوع الشمس﴾ میں فجر اور ﴿قبل غروبها﴾ میں عصر ﴿ومن آنآءاللیل﴾ آیت کریمہ ﴿وزلفا من اللیل﴾ کی طرح ہے۔ ﴿فسبحه وأطراف النهار﴾ میں ظہر کا ذکر ہے۔ الغرض نماز پنجگانہ کی یہ مختصر تفصیلات قرآن کریم میں ذکرہوئی ہیں، ان کے اوقات کی پوری تفصیل اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے اپنے عمل اورقول سے پیش کی ہیں، جن کے مطابق نماز کا ادا کرنا ضروری ہے۔ آج کل کچھ بدبختوں نے احادیث نبوی کا انکار کرکے صرف قرآن مجید پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کیاہے، چونکہ وہ قرآن مجید کی تفسیر محض اپنی رائے ناقص سے کرتے ہیں اس لیے ان میں کچھ لوگ پنج وقت نمازوں کے قائل ہیں، کچھ تین نمازیں بتلاتے ہیں اورکچھ دونمازوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ پھر ادائیگی نماز کے لیے انھوں نے اپنے ناقص دماغوں سے جو صورتیں تجویز کی ہیں وہ انتہائی مضحکہ خیز ہیں۔ احادیث نبوی کو چھوڑنے کایہی نتیجہ ہونا چاہیے تھا، چنانچہ یہ لوگ اہل اسلام میں بدترین انسان کہے جاسکتے ہیں۔ جنھوں نے قرآن مجید کی آڑمیں اپنے پیارے رسول ﷺ کے ساتھ کھلی ہوئی غداری پر کمرباندھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب فرمائے۔ آیت مذکورہ باب کے تحت امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ اگرتلوار چل رہی ہو اورٹھہرنے کی مہلت نہ ہو توتب بھی نماز اپنے وقت پر پڑھ لینی چاہیے، امام مالک ؒ کے نزدیک ایسے وقت میں نماز میں تاخیر درست ہے۔ ان کی دلیل خندق کی حدیث ہے جس میں مذکورہے کہ آنحضرت ﷺ نے کئی نمازوں کو تاخیر سے ادا فرمایا، وہ حدیث یہ ہے:''عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ، جَاءَ يَوْمَ الخَنْدَقِ، بَعْدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَجَعَلَ يَسُبُّ كُفَّارَ قُرَيْشٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا كِدْتُ أُصَلِّي العَصْرَ، حَتَّى كَادَتِ الشَّمْسُ تَغْرُبُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَاللَّهِ مَا صَلَّيْتُهَا» فَقُمْنَا إِلَى بُطْحَانَ، فَتَوَضَّأَ لِلصَّلاَةِ وَتَوَضَّأْنَا لَهَا، فَصَلَّى العَصْرَ بَعْدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى بَعْدَهَا المَغْرِبَ۔''(متفق علیه)’’یعنی جابر بن عبداللہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ خندق کے دن سورج غروب ہونے کے بعد کفار قریش کو برابھلا کہتے ہوئے خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور کہا کہ حضور میری عصر کی نماز رہ گئی، آنحضرت ﷺ نے فرمایاکہ میں بھی نہیں پڑھ سکاہوں۔ پس آپ ﷺ نے اورہم نے وضوکیا اور پہلے عصرکی نماز پھرمغرب کی نماز ادا کی۔‘‘ معلوم ہوا کہ ایسی ضرورت کے وقت تاخیر ہونے میں مضائقہ نہیں ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ اس موقعہ پر آنحضرت ﷺ اورصحابہ رضی اللہ عنہم کی چار نمازیں فوت ہوگئیں تھیں، جن کو مغرب کے وقت ترتیب کے ساتھ پڑھایاگیا۔ بعض علمائے احناف کا یہ کہنا کہ حضرت عمربن عبدالعزیز ؒ کے زمانہ میں عصر کی نماز دیر کرکے پڑھنے کا معمول غلط تھا روایت میں صاف موجود ہے کہ أخّر الصلوٰة یوما ایک دن اتفاق سے تاخیر ہوگئی تھی، حنفیہ کے جواب کے لیے یہی روایت کافی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Shihab (RA): Once'Umar bin 'Abdul ' Aziz (RA) delayed the prayer and 'Urwa bin Az-Zubair went to him and said, "Once in 'Iraq, Al-Mughira bin Shu'ba delayed his prayers and Abi Mas'ud Al-Ansari went to him and said, 'O Mughira! What is this? Don't you know that once Gabriel (ؑ) came and offered the prayer (Fajr prayer) and Allah's Apostle (ﷺ) prayed too, then he prayed again (Zuhr prayer) and so did Allah's Apostle (ﷺ) and again he prayed ('Asr prayers and Allah's Apostle (ﷺ) did the same; again he prayed (Maghrib-prayer) and so did Allah's Apostle (ﷺ) and again prayed ('Isha prayer) and so did Allah's Apostle (ﷺ) and ( Gabriel (ؑ)) said, 'I was ordered to do so (to demonstrate the prayers prescribed to you)?'" 'Umar (bin 'Abdul ' Aziz (RA) ) said to 'Urwa, "Be sure of what you Say. Did Gabriel (ؑ) lead Allah's Apostle (ﷺ) at the stated times of the prayers?" 'Urwa replied, "Bashir bin Abi Mas'ud narrated like this on the authority of his father."