باب: اس آیت میں جو بیان ہے کہ اور وہ بچے جو ابھی سن بلوغ کو نہیں پہنچے ہیں اس کے لیے کیا حکم ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: 'And those among you who have not come to the age of puberty.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5289.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ان سے کسی آدمی نے پوچھا: کیا تم عید الاضحیٰ یا عید الفطر کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں اور اگر میرا مقام و مرتبہ آپ ﷺ کے ہاں نہ ہوتا تو میں اپنی صغر سنی کی وجہ سے ایسے موقع پر حاضر نہیں ہو سکتا تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ باہر تسریف لے گئے، لوگوں کو نماز عید پڑھائی اور خطبہ دیا۔ انہوں نے اس نماز کے لیے اذان و اقامت کا ذکر نہیں کیا۔ پھر آپ عورتوں کے پاس آئے انہیں وعظ و نصحیت فرمائی، نیز انہیں صدقہ و خیرات کرنے کا حکم دیا۔ میں نے ان کو دیکھا کہ وہ اپنے کانوں اور گلے کی طرف ہاتھ بڑھا رہی تھیں۔ اپنے زیورات سیدنا بلال کے حوالے کر رہی تھیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ اور سیدنا بلال ؓ دونوں اپنے گھر واپس تشریف لے آئے۔
تشریح:
(1) عنوان کا مطلب یہ ہے کہ جو بچے ابھی سن بلوغت کو نہیں پہنچے وہ عورتوں کے پاس جا سکتے ہیں اور انھیں دیکھ سکتے ہیں، ان سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں، چنانچہ اس حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عورتوں کو اپنے زیورات کی طرف ہاتھ بڑھاتے دیکھا، یعنی عورتوں نے اپنے ہار اور اپنی بالیاں اتار کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں۔ مقصد یہ ہے کہ اس موقع پر جو کچھ عورتوں سے رونما ہوا اس کا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مشاہدہ کیا کیونکہ وہ کمسن تھے اور وہ ان سے پردہ نہ کرتی تھیں۔ (2) ممکن ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے انھوں نے پردہ کیا ہو۔ زیورات ان کے حوالے کرنے کا مطلب بے پردہ ہونا نہیں ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مشاہدے سے عنوان ثابت کیا ہے۔ والله اعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5048
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5249
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5249
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5249
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ان سے کسی آدمی نے پوچھا: کیا تم عید الاضحیٰ یا عید الفطر کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں اور اگر میرا مقام و مرتبہ آپ ﷺ کے ہاں نہ ہوتا تو میں اپنی صغر سنی کی وجہ سے ایسے موقع پر حاضر نہیں ہو سکتا تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ باہر تسریف لے گئے، لوگوں کو نماز عید پڑھائی اور خطبہ دیا۔ انہوں نے اس نماز کے لیے اذان و اقامت کا ذکر نہیں کیا۔ پھر آپ عورتوں کے پاس آئے انہیں وعظ و نصحیت فرمائی، نیز انہیں صدقہ و خیرات کرنے کا حکم دیا۔ میں نے ان کو دیکھا کہ وہ اپنے کانوں اور گلے کی طرف ہاتھ بڑھا رہی تھیں۔ اپنے زیورات سیدنا بلال کے حوالے کر رہی تھیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ اور سیدنا بلال ؓ دونوں اپنے گھر واپس تشریف لے آئے۔
حدیث حاشیہ:
(1) عنوان کا مطلب یہ ہے کہ جو بچے ابھی سن بلوغت کو نہیں پہنچے وہ عورتوں کے پاس جا سکتے ہیں اور انھیں دیکھ سکتے ہیں، ان سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں، چنانچہ اس حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عورتوں کو اپنے زیورات کی طرف ہاتھ بڑھاتے دیکھا، یعنی عورتوں نے اپنے ہار اور اپنی بالیاں اتار کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں۔ مقصد یہ ہے کہ اس موقع پر جو کچھ عورتوں سے رونما ہوا اس کا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مشاہدہ کیا کیونکہ وہ کمسن تھے اور وہ ان سے پردہ نہ کرتی تھیں۔ (2) ممکن ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے انھوں نے پردہ کیا ہو۔ زیورات ان کے حوالے کرنے کا مطلب بے پردہ ہونا نہیں ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مشاہدے سے عنوان ثابت کیا ہے۔ والله اعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، ان سے عبدالرحمن بن عابس نے، کہا میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے سنا، ان سے ایک شخص نے یہ سوال کیا تھا کہ تم بقر عید یا عید کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ موجود تھے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ اگر میں حضور اکرم ﷺ کا رشتہ دار نہ ہوتا تو میں اپنی کم سنی کی وجہ سے ایسے موقع پر حاضر نہیں ہو سکتا تھا۔ ان کا اشارہ (اس زمانے میں) اپنے بچپن کی طرف تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ حضور اکرم ﷺ باہر تشریف لے گئے اور (لوگوں کے ساتھ عید کی) نماز پڑھی اور اس کے بعد خطبہ دیا۔ ابن عباس ؓ نے اذان اور اقامت کا ذکر نہیں کیا، پھرآپ عورتوں کے پاس آئے اور انہیں وعظ و نصیحت کی اور انہیں خیرات دینے کا حکم دیا۔ میں نے انہیں دیکھا کہ پھر وہ اپنے کانوں اور گلے کی طرف ہاتھ بڑھا بڑھا کر (اپنے زیورات) حضرت بلال ؓ کو دینے لگیں۔ اس کے بعد حضرت بلال ؓ کے ساتھ حضور اکرم ﷺ واپس تشریف لائے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بچے تھے، انہوں نے عورتوں کے کان اور گلے دیکھے۔ باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdur-Rahman bin 'Abis (RA) : I heard Ibn 'Abbas (RA) answering a man who asked him, "Did you attend the prayer of 'Id al Adha or 'Id-al-Fitr with Allah's Apostle?" Ibn 'Abbas (RA) replied, "Yes, and had it not been for my close relationship with him, I could not have offered it." (That was because of his young age). Ibn 'Abbas (RA) further said, Allah's Apostle (ﷺ) went out and offered the Id prayer and then delivered the sermon." Ibn 'Abbas (RA) did not mention anything about the Adhan (the call for prayer) or the Iqama. He added, "Then the Prophet (ﷺ) went to the women and instructed them and gave them religious advice and ordered them to give alms and I saw them reaching out (their hands to) their ears and necks (to take off the earrings and necklaces, etc.) and throwing (it) towards Bilal (RA) . Then the Prophet (ﷺ) returned with Bilal (RA) to his house . "