ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: ”اور جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں۔ ۔ ۔ اگر وہ (مرد) سچوں میں سے ہو۔“
جب گونگا اپنی بیوی پر لکھ کر اشارے سے یا مخصوص اشارے سے تہمت لگائے تو اس کی حیثیت بولنے والے کی سی ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرائض میں اشارہ جائز رکھا ہے۔ کچھ اہل حجاز اور اہل علم کا یہی موقف ہےارشاد باری تعالٰی ہے: ”مریم عیسیٰ علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا تو لوگ کہنے لگے: ہم اس سے کیسے گفتگو کریں جو ابھی گہوارے میں بچہ ہے۔“
نیز امام ضحاک (الا رمزا) کی تفسیر اشارے سے کی ہےبعض لوگوں کا کہناہے کہ اشارے سے نہ تو حد قائم ہوسکتی ہے اور نہ لعان ہی ہوسکتا ہے جبکہ وہ مانتے ہیں کہ طلاق، کتابت، اشارے اور ایما سے ہوسکتی ہے حالانکہ طلاق اور تہمت میں کوئی فرق نہیں۔ اگر وہ کہیں کہ تہمت تو صرف گفتگو ہی سے تسلیم کی جائے گی تو ان سے کہا جائے گا کہ پھر یہی صورت طلاق میں ہونی چاہئے اسے بھی کلام ہی کے شریعے سے تسلیم کیا جائے، بصورت دیگر طلاق اور تہمت (اگر اشارے سے ہو تو) دونوں کو باطل ماننا چاہیے اور غلام کی ازادی کا بھی یہی حشر ہوگا۔ اسی طرح بہرا آدمی بھی لعان کرسکتا ہے امام شعبی اور قتادہ نے کہا: جب کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا: ”تجھے طلاق ہے“ پھر اپنی انگلیوں سے اشارہ کیا تو وہ بائن ہوجائے گی۔ ابراہیم نخعی نے کہا: گونگا جب اپنے ہاتھ سے طلاق لکھے تو وہ موثر ہوجاتی ہے حضرت حماد نے کہا: اگر گونگا اور بہرا اپنے سر سے اشارہ کریں تو جائز ہے
فائدہ: لعان باب مفاعلہ کا مصدر ”لعن“ سے مشق ہے۔ اس کے معنیٰ ہیں: بیوی شوہر کا رحمت الہٰی سے دور ہونا۔ جب شوہر اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اور اس کے پاس کوئی گواہ نہ ہو تو ایک مخصوص طریقے سے لعان کیا جاتا ہے جو سورہ نور ایت: 6 تا 9 میں موجود ہے۔ اس عمل کو لعان اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں پانچویں مرتبہ جھوٹے پر لعنت کی جاتی ہے۔ لعان کے نتیجے میں میاں بیوی دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لیے جدائی ہوجاتی ہے اور بچے کو اس کی ماں کے ساتھ ملحق کردیا جاتا ہے۔ وہ اپنی ماں کا وارث ہوگا اور وہ اس کی وارث ہوگی پھر جو کوئی بچے کی وجہ سے اس عورت پر تہمت لگائے اسے اسیّ کوڑے لگائے جائیں گے۔ اگر شوہر بیوی پر تہمت کے بعد گواہ نہیں لاتا تو اس پر حد قذف واجب ہے اگر لعان کرلیتا ہے تو حد قذف ساقط ہوجائے گی۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے اور انہوں نے انس بن مالک انصاری ؓ سے سنا، بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہیں بتاؤں کہ قبیلہ انصار کا سب سے بہتر گھرانہ کو ن سا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ضرور بتایئے یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا کہ بنو نجار کا۔ اس کے بعد ان کا مرتبہ ہے جو ان سے قریب ہیں یعنی بنو عبد الاشہل کا، ان کے بعد وہ ہیں جو ان سے قریب ہیں، بنی الحارث بن خزرج کا۔ اس کے بعد وہ ہیں جو ان سے قریب ہیں، بنو ساعدہ کا۔ پھر آنحضرت ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور اپنی مٹھی بند کی، پھر اسے اس طرح کھولا جیسے کوئی اپنے ہاتھ کی چیز کو پھینکتا ہے پھر فرمایا کہ انصار کے ہر گھرانہ میں خیر ہے۔
حدیث حاشیہ: