قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الطَّلاَقِ (بَابُ التَّلاَعُنِ فِي المَسْجِدِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

5309. حَدَّثَنَا يَحْيَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنِ المُلاَعَنَةِ، وَعَنِ السُّنَّةِ فِيهَا، عَنْ حَدِيثِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَخِي بَنِي سَاعِدَةَ: أَنَّ رَجُلًا مِنَ الأَنْصَارِ جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِي شَأْنِهِ مَا ذَكَرَ فِي القُرْآنِ مِنْ أَمْرِ المُتَلاَعِنَيْنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ قَضَى اللَّهُ فِيكَ وَفِي امْرَأَتِكَ» قَالَ: فَتَلاَعَنَا فِي المَسْجِدِ وَأَنَا شَاهِدٌ، فَلَمَّا فَرَغَا قَالَ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا، فَطَلَّقَهَا ثَلاَثًا، قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ فَرَغَا مِنَ التَّلاَعُنِ، فَفَارَقَهَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ذَاكَ تَفْرِيقٌ بَيْنَ كُلِّ مُتَلاَعِنَيْنِ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَكَانَتِ السُّنَّةُ بَعْدَهُمَا أَنْ يُفَرَّقَ بَيْنَ المُتَلاَعِنَيْنِ. وَكَانَتْ حَامِلًا، وَكَانَ ابْنُهَا يُدْعَى لِأُمِّهِ، قَالَ: ثُمَّ جَرَتِ السُّنَّةُ فِي مِيرَاثِهَا أَنَّهَا تَرِثُهُ وَيَرِثُ مِنْهَا مَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ، قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ فِي هَذَا الحَدِيثِ، إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنْ جَاءَتْ بِهِ أَحْمَرَ قَصِيرًا، كَأَنَّهُ وَحَرَةٌ، فَلاَ أُرَاهَا إِلَّا قَدْ صَدَقَتْ وَكَذَبَ عَلَيْهَا، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَسْوَدَ أَعْيَنَ، ذَا أَلْيَتَيْنِ، فَلاَ أُرَاهُ إِلَّا قَدْ صَدَقَ عَلَيْهَا» فَجَاءَتْ بِهِ عَلَى المَكْرُوهِ مِنْ ذَلِكَ

مترجم:

5309.

سیدنا سہل بن سعد ؓ جو بنو ساعدہ سے ہیں، ان سے روایت ہے کہ انصار کا ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اس آدمی کے متعلق کیا کہتے ہیں جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھے، کیا وہ اسے قتل کر دے یا اسے کیا کرنا چاہئے؟ تو اس وقت اللہ تعالٰی نے قرآن مجہد میں وہ آیات نازل فرمائیں جن میں لعان کرنے والوں کے متعلق تفصیلات ہیں۔ نبی ﷺ نے (ان سے) فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے متعلق فیصلہ کر دیا ہے۔“ پھر میاں بیوی دونوں نے مسجد میں لعان کیا۔ میں اس وقت وہاں موجود تھا۔ جب دونوں لعان سے فارغ ہوئے تو انصاری صحابی نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر اب بھی میں اسے اپنے نکاح میں رکھوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی تھی چانچہ لعان سے فراغت کے فوراً بعد رسول اللہ ﷺ کے حکم سے پہلے ہی اس نے تین طلاقیں دے دیں اور نبی ﷺ کی موجودگی ہی میں وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔ راوی نے کہا: ہر لعان کرنے والے میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کا یہی طریقہ مقرر ہوا۔ ابن شہاب نے کہا: ان نے بعد یہی طریقہ متعین ہوا کہ لعان کرنے والے دونوں میاں بیوی کے درمیان تفریق کرا دی جائے۔ اور وہ حاملہ تھی اور اس کے بیٹے کو ماں کے نام سے بلایا جاتا تھا۔ پھر ایسی عورت کی وراثت کے متعلق بھی یہی طریقہ مقرر ہوا کہ بچہ اس کا وارث ہوگا اور وہ بچے کی وراث ہوگی اس تفصیل کی مطابق جو اللہ تعالٰی نے وراثت کے سلسلے میں مقرر کی ہے سیدنا سہل بن سعد ساعدی ؓ اس کی مزید تفصیل بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اگر یہ عورت اس حمل سے سرخ رنگ والا پست قد بچہ جنم دے، گویا وہ سام ابرص ہے تو میں سمجھوں گا کہ عورت سچی تھی اور اس کے شوہر نے آنکھوں والا اور موٹے سرینوں والا بچہ جنا تو میں خیال کروں گا کہ شوہر نے اس کے متعلق صحیح کہاتھا۔“ چنانچہ جب بچہ پیدا ہوا تو وہ بری شکل کا تھا، یعنی اس مرد کی صورت پر جس سے وہ بد نام ہوئی تھی۔