تشریح:
(1) عنوان اور پیش کی گئی حدیث کا مقصد ہے کہ حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ حالات کے پیش نظر لعان کرنے والوں کو وعظ و نصیحت کرے، لعان سے پہلے بھی کیونکہ ان دونوں کو اس کی سنگینی سے آگاہ کرنا چاہیے آخر ان میں سے ایک تو ضرور جھوٹا ہے، لہٰذا جھوٹے آدمی کو اس اقدام سے بچنا چاہیے اور ایک بے گناہ اور معصوم پر تہمت زنا سے باز رہنا چاہیے اور لعان کے بعد بھی وہ اپنا دعوت و ارشاد کا فریضہ ادا کرے تا کہ اگر کسی نے جھوٹ بولا ہےتو اس سے توبہ کرے اور اس گناہ کی تلافی کا سامان کرے۔
(2) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث میں لعان سے پہلے اور بعد میں وعظ کرنے کے دونوں احتمال ہیں، البتہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ یہ وعظ لعان سے پہلے ہونا چاہیے کیونکہ جب لعان سے متعلقہ آیات اتریں تو آپ نے ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ اور اس کی بیوی کو بلایا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے۔ کیا تم میں سے کوئی تائب ہوگا؟ یہ وعظ سن کر حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میں قسم اٹھاتا ہوں کہ میں سچا ہوں۔ (فتح الباري: 568/9) بہرحال لعان کرنے والوں کو وعظ و نصیحت لعان سے پہلے اور لعان کے بعد دونوں وقت کرنی چاہیے شاید ان میں سے کسی کے دل میں بات اتر جائے اور اپنے گناہ کی تلافی کرے۔ واللہ أعلم