قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات و شمائل

‌صحيح البخاري: كِتَابُ النَّفَقَاتِ (بَابُ حَبْسِ نَفَقَةِ الرَّجُلِ قُوتَ سَنَةٍ عَلَى أَهْلِهِ، وَكَيْفَ نَفَقَاتُ العِيَالِ؟)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

5358. حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ وَكَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ذَكَرَ لِي ذِكْرًا مِنْ حَدِيثِهِ فَانْطَلَقْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ مَالِكٌ انْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى عُمَرَ إِذْ أَتَاهُ حَاجِبُهُ يَرْفَا فَقَالَ هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ وَالزُّبَيْرِ وَسَعْدٍ يَسْتَأْذِنُونَ قَالَ نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمْ قَالَ فَدَخَلُوا وَسَلَّمُوا فَجَلَسُوا ثُمَّ لَبِثَ يَرْفَا قَلِيلًا فَقَالَ لِعُمَرَ هَلْ لَكَ فِي عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ قَالَ نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمَا فَلَمَّا دَخَلَا سَلَّمَا وَجَلَسَا فَقَالَ عَبَّاسٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا فَقَالَ الرَّهْطُ عُثْمَانُ وَأَصْحَابُهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنْ الْآخَرِ فَقَالَ عُمَرُ اتَّئِدُوا أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ قَالَ الرَّهْطُ قَدْ قَالَ ذَلِكَ فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ فَقَالَ أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَلِكَ قَالَا قَدْ قَالَ ذَلِكَ قَالَ عُمَرُ فَإِنِّي أُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ قَدْ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ قَالَ اللَّهُ مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ إِلَى قَوْلِهِ قَدِيرٌ فَكَانَتْ هَذِهِ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ وَلَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ لَقَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَبَثَّهَا فِيكُمْ حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ فَعَمِلَ بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيَاتَهُ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ قَالُوا نَعَمْ قَالَ لِعَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ قَالَا نَعَمْ ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ فَقَبَضَهَا أَبُو بَكْرٍ يَعْمَلُ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتُمَا حِينَئِذٍ وَأَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ تَزْعُمَانِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَذَا وَكَذَا وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّهُ فِيهَا صَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ فَقُلْتُ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ فَقَبَضْتُهَا سَنَتَيْنِ أَعْمَلُ فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ ثُمَّ جِئْتُمَانِي وَكَلِمَتُكُمَا وَاحِدَةٌ وَأَمْرُكُمَا جَمِيعٌ جِئْتَنِي تَسْأَلُنِي نَصِيبَكَ مِنْ ابْنِ أَخِيكَ وَأَتَى هَذَا يَسْأَلُنِي نَصِيبَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا فَقُلْتُ إِنْ شِئْتُمَا دَفَعْتُهُ إِلَيْكُمَا عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ وَمِيثَاقَهُ لَتَعْمَلَانِ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَا عَمِلَ بِهِ فِيهَا أَبُو بَكْرٍ وَبِمَا عَمِلْتُ بِهِ فِيهَا مُنْذُ وُلِّيتُهَا وَإِلَّا فَلَا تُكَلِّمَانِي فِيهَا فَقُلْتُمَا ادْفَعْهَا إِلَيْنَا بِذَلِكَ فَدَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا بِذَلِكَ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا بِذَلِكَ فَقَالَ الرَّهْطُ نَعَمْ قَالَ فَأَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ فَقَالَ أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا بِذَلِكَ قَالَا نَعَمْ قَالَ أَفَتَلْتَمِسَانِ مِنِّي قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ فَوَالَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ لَا أَقْضِي فِيهَا قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَادْفَعَاهَا فَأَنَا أَكْفِيَكُمَاهَا.

مترجم:

5358.

سیدنا امام ابن شہاب زہری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے مالک بن اوس بن حدثان نے خبر دی جبکہ (اس سے پہلے) محمد بن جبیر بن معطم نے مجھ سے اس حدیث کا کچھ حصہ بیان کیا تھا پھر میں خود سیدنا مالک بن اوس کے پاس گیا اور ان سے اس حدیث کی بابت پوچھا تو حضرت مالک بن اوس بن حدثان نے کہا کہ میں سیدنا عمر بن خطاب ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس دوران میں ان کے چوکیدار جناب یرفا ان کے پاس آئے اور عرض کیا کہ سیدنا عثمان، سیدنا عبدالرحمن، سیدنا زبیر، اور سیدنا سعد‬ ؓ ا‬جازت چاہتے ہیں کیا آپ انہیں اندر آنے کی اجازت دیتے ہیں؟ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا: ہاں انہیں اجازت ہے، چنانچہ انہیں اجازت دی گئی تو وہ اندر آئے اورسلام کر کے بیٹھ گئے سیدنا یرفا نے تھوڑی دیر کے بعد سیدنا عمر بن خطاب ؓ کے پاس آ کر عرض کیا: سیدنا علی بن ابی طالب ؓ اور سیدنا عباس ؓ کو اندر آنے کی اجازت دیتے ہیں؟ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے انہیں بھی اندر بلانے کے لیے فرمایا۔ یہ حضرات بھی اندر آئے سلام کہا اور بیٹھ گئے۔ اس کے بعد سیدنا عباس ؓ نے کہا: امیرالمومنین! میرے اور سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کے درمیان فیصلہ کر دیں۔ سیدنا علی بن ابی طالب ؓ اور دوسرے صحابہ کرام ؓم نے بھی کہا: امیر المومنین! ان کا فیصلہ کر دیں اور انہیں اس الجھن سے نجات دلائیں، سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: ”ذرا صبر کریں، جلدی سے کام نہ لیں۔ میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو چھوڑیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔“ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد اپنی ذات کی طرف تھا مجلس میں موجود صحابہ کرام ؓ نے اس کی تصدیق کی کہ واقعی آپ نے فرمایا تھا اس کے بعد سیدنا عمر بن خطاب ؓ، سیدنا علی بن ابی طالب ؓ اور سیدنا عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا؟ انہوں نے بھی تصدیق کی کہ آپ ﷺ نے واقعی یہ فرمایا تھا۔ پھر سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: اب میں اس معاملے میں آپ سے بات کرتا ہوں۔ بلاشبہ اللہ تعالٰی نے اس مال فے کو اپنے رسول اللہ ﷺ کے لیے خاص فرمایا اور آپ کے علاوہ کسی کو یہ مال نہیں دیا چنانچہ ارشاد باری تعالٰی ہے: اور جو مال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ان سے دلوایا ہے جس پر تم نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے۔ ۔ ۔ لہذا یہ تمام اموال رسول اللہ ﷺ کے لیے تھے اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے تمہیں نظر انداز کر کے ان کو اپنے لیے خاص نہیں کر لیا تھا اور نہ تمہارا حصہ کم کر کے اپنی ذات کے لیے مخصوص کیا تھا بلکہ آپ ﷺ نے وہ اموال تمہیں دیے اور تم میں صرف کر دیے کہ اس میں یہ مال باقی رہ گیا ہے اس سے رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کے لیے سال بھر کا خرچ لیتے اور جو باقی رہ جاتا اسے اللہ کی راہ میں مصالح المسلمین کے لیے خرچ کر دیتے زندگی بھر رسول اللہ ﷺ کا یہی معمول رہا۔ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا تم اس کو جانتے ہو؟ انہوں نے کہا: جی ہاں ہمیں یہ معلوم ہے پھر آپ نے سیدنا علی بن ابی طالب ؓ اور سیدنا عباس ؓ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: میں تمہیں بھی اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تمہیں بھی یہ بات معلوم ہے؟ انہوں نے کہا: ہم یہ بات جانتے ہیں۔ پھر اللہ تعالٰی نے اپنے نبی ﷺ کو وفات دی تو سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کا جانشین ہوں اور انہوں نے اس جائیداد کو اپنے قبضے میں لے لیا اور اس میں اس طرح عمل کیا جس طرح رسول اللہ ﷺ کرتے تھے۔ پھر آپ نے سیدنا علی بن ابی طالب ؓ اور سیدنا عباس ؓ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: آپ دونوں اس وقت سمجھتے تھے کہ ابو بکر نے ایسے کیا ویسے کیا: اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ اس معاملے میں انہتائی مخلص راست باز، نیکوکار اور حق کے کے پیرو کار تھے پھر اللہ تعالٰی نے سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کو وفات دی تو اب میں رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کا جانشین ہوں اور عرصہ دو سال تک میں نے اس جائیداد کو اپنے قبضے میں لیے رکھا اور اس کے متعلق وہی کرتا رہا جو رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کرتے رہے پھر تم دونوں میرے پاس آئے۔ تم دونوں کی بات بھی ایک تھی اور معاملہ بھی ایک ہی تھا۔ آپ آئے اور اپنے بھتیجے کی وراثت کا مطالبہ کیا اور انہوں نے اپنی بیوی کا حصہ ان کے باپ کے مال سے طلب کیا۔ میں نے اس وقت بھی کہا تھا: اگر تم چاہتے ہو تو میں جائیداد اس شرط پر تمہارے حوالے کرتا ہوں کہ اللہ کا عہد واجب ہوگا وہ یہ کہ آپ دونوں بھی اس جائیداد میں وہی طرز عمل اختیار کریں جو رسول اللہ ﷺ کا تھا جس کے مطابق سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے عمل کیا تھا۔ اور میں نے بھی جب سے اس نظام حکومت کو سنبھالا ہے اس کے مطابق طرز عمل اختیار کیا۔ اگر تمہیں ی شرط منظور ہو تو ٹھیک بصورت دیگر تم مجھ سے اس معاملے میں گفتگو نہ کرو۔ اس وقت آپ لوگوں نے کہا: آپ ان شرائط کے مطابق یہ جائیداد ہمارے حوالے کر دیں، چنانچہ میں ان شرائط کے مطابق وہ جائیداد تمہارے حوالے کر دی۔ ساتھیو! میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا میں نے انھی شرائط کے مطابق وہ جائیداد تمہارے حوالے کی تھی؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، پھر آپ سیدنا علی بن ابی طالب ؓ اور سیدنا عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میں آپ حضرات کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا میں نے وہ جائیداد انہں شرائط کے مطابق وہ جائیداد ان کے حوالے کی تھی؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، پھر آپ سیدنا علی بن ابی طالب ؓ اور سیدنا عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میں آپ حضرات کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا میں نے وہ جائیداد انھی شرائط کے مطابق تماہرے حوالے کی تھی؟ دونوں حضرات نے فرمایا: جی ہاں، پھر سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: کیا آپ اس فیصلے کی سوا کوئی دوسرا فیصلہ چاہتے ہیں؟ مجھے اس ذات کی قسم جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں میں اس کے سوا کوئی دوسرا فیصلہ قیامت تک نہیں کر سکتا اب اگر حضرات یہ ذمہ داری پوری کرنے سے قاصر ہیں تو آپ مجھے وہ جائیداد واپس کر دیں میں اس کا بندوبست خود ہی کرلوں گا۔