تشریح:
(1) حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما دوبارہ اس غرض سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تھے کہ وہ جائیداد دونوں کے درمیان مشترک تھی اور شراکت کی وجہ سے آئے دن ان کے جھگڑے رہتے تھے، اس لیے ان کا مطالبہ تھا کہ یہ جائیداد ہمارے درمیان تقسیم کر دی جائے، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر تقسیم کرنے سے اس لیے انکار کر دیا کہ اگر اسے تقسیم کر دیا گیا تو زمانہ گزرنے پر ایسا وقت بھی آ سکتا ہے کہ دونوں کی اولادیں اس جائیداد کی ملکیت کا دعویٰ کر دیں۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد کہے کہ یہ جائیداد اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی تھی، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد کہے کہ یہ ہماری جدہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حصہ ہے جو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا تھا، اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اسے تقسیم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔
(2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے ان حضرات کی تردید کی ہے جو کہتے ہیں کہ طعام کا ذخیرہ کرنا توکل کے خلاف ہے، لہذا یہ ناجائز ہے۔ جب سید المتوکلین صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل و عیال کے لیے طعام ذخیرہ کرتے تھے تو اس کے جائز ہونے میں کیا شک و شبہ ہو سکتا ہے اور ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں بلکہ یہ تو خالص ایک انتظامی معاملہ ہے جس سے گھر کا نظام چلانا مقصود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فراخدلی اور سخاوت اس حد تک تھی کہ بعض اوقات سال بھر کے لیے جمع کیا ہوا مال سال پورا ہونے سے پہلے ختم ہو جاتا کیونکہ وہ ضرورت مندوں کو دے دیتے، پھر گھر کا نظام چلانے کے لیے کسی سے ادھار لیتے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر کے آخری حصے میں ایک یہودی سے چند وسق جو لیے اور اپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھی، لیکن عمر نے وفا نہ کی، ادائیگی سے پہلے ہی آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آ گیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہودی کو جو کی ادائیگی کر کے وہ زرہ واپس لی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کی۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔
(3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان سے ایک حدیث کا مطلب واضح کیا ہے، حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ کل کے لیے کوئی چیز ذخیرہ نہیں کرتے تھے۔ اس عنوان کا مطلب یہ ہوا کہ اپنے علاوہ دوسروں کے لیے ذخیرہ کر لیتے تھے۔ اگرچہ اس میں آپ خود بھی شریک ہوتے لیکن اپنی ذات کے لیے کچھ بھی ذخیرہ نہ کرتے تھے۔ (فتح الباری: 624/9)