تشریح:
(1) صفین، عراق اور شام کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے جہاں حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان سخت معرکہ ہوا تھا۔
(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خاوند کے ذمے گھریلو کام کاج کے لیے کسی نوکرانی کا بندوبست کرنا ضروری نہیں کیونکہ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی قسم کا مطالبہ نہیں کیا، حالانکہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا گھریلو کام کاج کی وجہ سے سخت تکلیف میں تھیں۔ اگر یہ امر واجب ہوتا تو آپ ضرور حکم دیتے۔ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حق مہر کے متعلق ضرور کہا تھا کہ وہ پہلے ادا کر دیں، حالانکہ اسے مؤخر بھی کیا جا سکتا تھا بشرطیکہ بیوی رضا مند ہو۔ لیکن اگر خادم کا بندوبست کرنا خاوند کے ذمے ہوتا تو آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس کا ضرور مطالبہ کرتے۔
(3) گھریلو کام کاج کرنا عورت کی ذمہ داری ہے جبکہ گھر سے باہر کی خدمات خاوند کے ذمے ہیں، ہاں اگر عورت کمزور ہے اور وہ گھر کا کام نہیں کر سکتی تو خاوند کو چاہیے کہ وہ اس کا بندوبست کرے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ان عورتوں سے حسن معاشرت کا مظاہرہ کرو۔‘‘ (النساء: 4/19) اگر کوئی خاوند ضرورت کے باوجود گھر کا نظام چلانے کے لیے کوئی بدوبست نہیں کرتا تو گویا وہ حسن معاشرت سے راہ فرار اختیار کرتا ہے۔ اس واقعے سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ گھر کے داخلی امور بیوی کے ذمے ہیں اور بیرونی معاملات و خدمات کی بجا آوری خاوند کی ڈیوٹی ہے۔ واللہ أعلم