تشریح:
(1) ایک روایت میں صراحت ہے کہ اذان دینے والے سیدنا بلال ؓ تھے، انھیں رسول اللہ ﷺ نے تین مرتبہ ٹھنڈے وقت کا انتظار کرنے کی تلقین فرمائی۔ صحیح بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ٹیلوں کا سایہ ان کے برابر ہوگیا تو اذان دی گئی۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث :629) اس مساوات کا مطلب یہ نہیں کہ ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہونے تک نماز ظہر کا انتظار کیا، بلکہ ساوٰی کے الفاظ ظَهَرَ کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دوران سفر میں رسول اللہ ﷺ نے نماز ظہر کو عصر کے ساتھ جمع کرنے کے لیے اس کے آخری وقت کا انتظار کیا ہو۔ (فتح الباري:29/2) لیکن حدیث میں جمع کرنے کا کوئی اشارہ نہیں ہے۔ بظاہر راوی کا ارادہ حقیقی مساوات بیان کرنا نہیں بلکہ سایہ ظاہر ہونے کو بیان کرنا ہے۔ جیساکہ حدیث:(535) سے معلوم ہوتا ہے۔
(2) بعض ائمۂ کرام نے سخت گرمی کے دنوں میں نماز ظہر مؤخر کرنے کے متعلق یہ موقف اختیار کیا کہ تاخیر اس صورت میں ہوسکتی ہے جب لوگوں کو سخت گرمی میں نمازادا کرنا دشوار ہو اور نمازیوں کو نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے دور سے مسجد میں آنا پڑے، منفرد کے لیے بہر صورت اول وقت نماز ادا کرنا افضل ہے۔ اسی طرح اگر نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے دور سے نہ آنا پڑتا ہو یا نماز پڑھنے والے ایک مقام پر جمع ہوں یا دور سے آنے کی صورت میں سائے وغیرہ کا اہتمام ہوتو نمازمؤخر کرنے سے اجتناب کیا جائے، بلکہ اسے اول وقت ہی ادا کرنا چاہیے۔ جیسا کہ امام ترمذی ؒ لکھتے ہیں:’’امام شافعی ؒ نے فرمایا کہ نماز ظہر کو ٹھنڈے وقت میں پڑھنے کی ہدایت صرف اس صورت میں ہے جب نمازیوں کو مسجد میں دور سے آنا پڑتا ہو لیکن تنہا یا اپنی قوم کی مسجد میں نماز باجماعت پڑھنے والے کے متعلق میں یہی پسند کرتا ہوں کہ گرمی کی شدت میں بھی نماز ظہر کو مؤخر نہ کیا جائے۔‘‘ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:157) امام بخاری ؒ کا اس عنوان کے ذریعے سے غالباً اسی موقف کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ گرمی کی شدت میں نماز ظہر کو تاخیر سے ادا کرنے کا حکم سفروحضر دونوں میں عام ہے اور اس میں کسی طرح کی تخصیص نہیں ہے۔
(3) ابراد کےلیے کوئی خاص حد بیان نہیں ہوئی کہ اس کی انتہا کیا ہے؟ مختلف احوال و ظروف کے پیش نظر اس کا حکم مختلف ہو سکتا ہے۔ البتہ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اسے ٹھنڈا کرتے کرتے اسے اس کے آخر وقت تک نہ پہنچا دیا جائے۔ واضح رہے کہ دوران سفر میں اس وقت نماز کو ٹھنڈا کیا جائے، جب مسافر حضرات پڑاؤ کیے ہوئے ہوں، بصورت دیگر جب سفر جاری ہوتو اس وقت جمع تقدیم اور جمع تاخیر دونوں ممکن ہیں۔
(4) امام بخاری ؒ کا یہ اسلوب ہے کہ اگر حدیث میں کوئی ایسا لفظ آجائے کہ وہ یا اس سے ملتا جلتا لفظ قرآن نے استعمال کیا ہو تو قرآن کریم کے لفظ کوذکر کر کے اس کی لغوی تشریح کردیتے ہیں، چنانچہ حدیث میں آنے والے لفظ (فيئ التلول) کی مناسبت سے(يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ) (النحل: 16: 48) کی لفظی تشریح کرتے ہوئے حضرت ابن عباس ؓ کا قول پیش کیا کہ اس کے معنی مائل ہونا ہیں، یعنی سائے کو (فيئ) اس لیے کہتے ہیں کہ یہ پہلے ایک جانب جھکا ہوتا ہے، پھر دوسری طرف مائل ہوجاتا ہے۔