تشریح:
(1) اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصود نماز ظہر کا اول وقت بتانا ہے کہ وہ زوال آفتاب کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے، نیز اس میں اہل کوفہ کا رد ہے۔ ان کے ہاں نماز ظہر کا وقت زوال آفتاب کے فورا بعد شروع نہیں ہوتا، حالانکہ مذکورہ حدیث واضح طور پر ان کے موقف کی تردید کرتی ہے۔ اہل کوفہ اپنے موقف پر اصرار کرتے ہوئے ان احادیث کو منسوخ یا مرجوح قرار دیتے ہیں، حالانکہ نسخ یا ترجیح کا معاملہ اس وقت ہوتا ہے جب احادیث آپس میں متعارض ہوں، لیکن ابراد اور اول وقت نماز پڑھنے کی احادیث میں کوئی تعارض نہیں، کیونکہ مذکورہ حدیث میں نماز ظہر کا اول وقت بیان ہوا ہے جبکہ ابراد (ٹھنڈے وقت میں پڑھنے) کا حکم شدت گرمی کے ساتھ خاص ہے۔ (فتح الباري: 30/2)
(2) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تک میں یہاں ہوں تمھارے سوالوں کا جواب دوں گا۔ یہ ایک وقتی چیز تھی، لہٰذا اس سے رسول اللہ ﷺ کے علم غیب کلی پر استدلال کرنا صحیح نہیں، کیونکہ یہ صفت صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ﴾ ’’کہہ دیجیے! آسمانوں اور زمین کے غیب کو اللہ کے سوا کوئی اور نہیں جانتا۔‘‘ (النمل: 27: 65) قرآن کریم کی متعدد آیات سے پتا چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ غیب دان نہیں بلکہ یہ صفت صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خاص ہے، نیز حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حاضرین کی طرف سے کیے گئے سوالات کے جوابات دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، تو زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ سائلین کی ذہنی پرواز جہاں تک ہوسکتی تھی، اتنے ہی علوم عطا فرمائے گئے تھے۔ اور یہ بات تو واضح ہے کہ سائلین کا علم محدود ہے، اس کا علم غیب سے کوئی تعلق نہیں، پھر نبی ﷺ کا یہ فرمانا کہ ’’جب تک میں اس مقام پر ہوں سوال کرو‘‘ بھی دلالت کرتا ہے کہ آپ کو علم غیب نہیں تھا۔
(3) حضرت عبداللہ بن حذافہ کولوگ نسب کے سلسلے میں طعنے دیتے تھے، اس لیے انھوں نے اپنے باپ کے متعلق سوال کیا تاکہ طعنوں کا سلسلہ بند ہوجائے۔ اس وضاحت کے بعد طعن وتشنیع کا سلسلہ تو بند ہو گیا لیکن ان کی والدہ نے اس سوال پر انہیں بہت سرزنش کی، چنانچہ دیگر روایات میں ہے کہ والدہ نے بایں الفاظ نوٹس لیا کہ میں نے تجھ جیسا نافرمان بیٹا نہیں دیکھا۔ کیا تجھے یقین تھا کہ تیری والدہ نے جاہلیت کی عورتوں کی طرح کوئی غلطی نہیں کی تھی۔ اگر رسول اللہ ﷺ کی زبان پر کسی اور کانام آجاتا تو کس قدر رسوائی ہوتی!تونے مجمع عام میں اس طرح کا سوال کرکے بڑی نادانی کا ثبوت دیا ہے۔ حضرت عبداللہ ؓ نے جواب دیا: اللہ کی قسم! اگر رسول اللہ ﷺ میرا نسب کسی سیاہ غلام سے بھی ملا دیتے تو میں اسے قبول کرلیتا۔ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث:6121(2359))