قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَطْعِمَةِ (بَابُ الخَزِيرَةِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَالَ النَّضْرُ: الخَزِيرَةُ مِنَ النُّخَالَةِ، وَالحَرِيرَةُ مِنَ اللَّبَنِ

5401. حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ الأَنْصَارِيُّ، أَنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الأَنْصَارِ: أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَنْكَرْتُ بَصَرِي، وَأَنَا أُصَلِّي لِقَوْمِي، فَإِذَا كَانَتِ الأَمْطَارُ سَالَ الوَادِي الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ، لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ آتِيَ مَسْجِدَهُمْ فَأُصَلِّيَ لَهُمْ، فَوَدِدْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَّكَ تَأْتِي فَتُصَلِّي فِي بَيْتِي فَأَتَّخِذُهُ مُصَلًّى، فَقَالَ: «سَأَفْعَلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ» قَالَ عِتْبَانُ: فَغَدَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ حِينَ ارْتَفَعَ النَّهَارُ، فَاسْتَأْذَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَذِنْتُ لَهُ، فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى دَخَلَ البَيْتَ، ثُمَّ قَالَ لِي: «أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ؟» فَأَشَرْتُ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنَ البَيْتِ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ فَصَفَفْنَا، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ، وَحَبَسْنَاهُ عَلَى خَزِيرٍ صَنَعْنَاهُ، فَثَابَ فِي البَيْتِ رِجَالٌ مِنْ أَهْلِ الدَّارِ ذَوُو عَدَدٍ فَاجْتَمَعُوا، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ: أَيْنَ مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُنِ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: ذَلِكَ مُنَافِقٌ، لاَ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تَقُلْ، أَلاَ تَرَاهُ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يُرِيدُ بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ؟ قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: قُلْنَا: فَإِنَّا نَرَى وَجْهَهُ وَنَصِيحَتَهُ إِلَى المُنَافِقِينَ، فَقَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: ثُمَّ سَأَلْتُ الحُصَيْنَ بْنَ مُحَمَّدٍ الأَنْصَارِيَّ، أَحَدَ بَنِي سَالِمٍ، وَكَانَ مِنْ سَرَاتِهِمْ، عَنْ حَدِيثِ مَحْمُودٍ، فَصَدَّقَهُ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اورنضر بن شمیل نے کہا کہ خزیرہ بھو سی سے بنتا ہے اور حریرہ دودھ سے ۔اکثر نے کہا کہ حریرہ آٹا سے بنایا جاتا ہے اور خزیرہ جو کے آٹے اور گوشت کے ٹکڑوں سے پتلا پتلا حریرہ کی طرح بنایا جاتا ہے اگر گوشت نہ ہو خالی آٹا ہو تو وہ حریرہ ہے۔

5401.

سیدنا محمود بن ربیع ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عتبان بن مالک ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ صاحب نبی ﷺ کے انصاری صحابہ میں سے ہیں انہوں نے غزوہ بدر میں بھی شرکت کی تھی انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میری نظر کمزور ہو چکی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں موسم برسات میں یہ نالا بہہ پڑتا ہے جو میری لیے ان کی مسجد میں جانا اور انہیں نماز پڑھانا ممکن نہیں رہتا۔ اللہ کے رسول! میری انہتائی خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لے چلیں اور وہاں نماز پڑھیں تو میں اس جگہ کو اپنے لیے ”جائے نماز“ قرار دے لوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں إن شاء اللہ جلد ہی ایسا کروں گا حضرت عتبان ؓ نے کہا کہ ایک دن چاشت کے وقت جب سورج کچھ بلند ہوا تو رسول اللہ ﷺ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے ہمراہ تشریف لائے۔ نبی ﷺ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو میں نے اجازت دے دی۔ جب آپ گھر میں داخل ہوئے تو بیٹھے بغیر ہی آپ نے فرمایا: ”تم اپنے گھر میں کس جگہ کو پسند کرتے ہو کہ میں وہاں نماز پڑھوں؟“ میں نے گھر کے ایک کونے کی نشاندہی کی۔ نبی ﷺ نے وہاں کھڑے ہو کر تکبیر کہی۔ ہم نے آپ کے پیچھے صف بنا لی۔ آپ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر سلام پھیر دیا۔ ہم نے آپ ﷺ کو خزیرہ پیش کرنے کے لیے روک لیا جو ہم نے خود تیار کیا تھا گھر میں قبیلے کے بہت سے لوگ جمع ہو گئے، ان میں سے کسی نے کہا: مالک بن دخشن کہاں ہیں؟ کسی نے کہا: وہ تو منافق ہے، اسے اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ایسا نہ کہو، کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اس نے لا إله إلا اللہ کا اقرار کیا ہے اور اس اقرار سے اس کا مقصد صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔“ (صحابی) نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ہم نے تو اس لیے یہ بات کہی تھی کہ ہم اس کی توجہ اور اس کا لگاؤ منافقین کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص لا إله إلا اللہ کا اقرار کرے اور اس سے مقصود اللہ کی خوشنودی ہو تو اللہ تعالٰی نے دوزخ کی آگ ایسے شخص پر حرام کر دی ہے۔“ (راوئ حدیث) حضرت ابن شہاب کہتے ہیں: پھر میں قبیلہ بنو سالم کے ایک فرد ان کے سردار سیدنا حصین بن محمد انصاری ؓ سے محمود بن ربیع ؓ کی بیان کردہ حدیث کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی۔