تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا موقف ہے کہ نماز ظہر کا وقت زوال آفتاب کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نماز ظہر کو اسی وقت میں ادا کیا جاتا تھا، خواہ اس کے لیے سخت گرمی ہی کو برداشت کرنا پڑتا، چنانچہ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز ظہر عین دوپہر کے وقت پڑھا کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:560) نماز ظہر کو ٹھنڈے وقت میں پڑھنے سے متعلقہ احادیث اس کے مخالف نہیں ہیں، کیونکہ سخت گرمی میں ٹھنڈا کر کے پڑھنا افضل ہے اور زوال آفتاب کے وقت پڑھنے کی احادیث بیان جواز کے لیے ہیں یا سخت گرمی کے علاوہ دیگر اوقات سے متعلق ہیں۔ (فتح الباري:32/2)
(2) مذکورہ روایت بیان وقت کے سلسلے میں مبہم ہے، کیونکہ اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ جب ہم ظہر کی نماز پڑھتے تو گرمی کی اتنی شدت ہوتی تھی کہ ہمیں زمین پر سجدہ کرنے کے لیےکپڑا بچھانے کی ضرورت پڑتی۔ دراصل امام بخاری ؒ نے اپنے ذوق کے مطابق یہ صحیح روایت ذکر کرکے یہ وضاحت کی ہے کہ اس ابہام کو عنوان اور اس کے تحت ذکر کردہ دیگر روایات کے مطابق زوال آفتاب کے بعد محمول کیا جائے۔ علامہ عینی ؒ نے عنوان کے ساتھ اس حدیث کی مطابقت بایں الفاظ بیان کی ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جو ظہر کی نماز پڑھتے تھے، اس میں گرمی کی شدت ہوتی تھی۔ اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ نماز ظہر اول وقت میں ہوتی تھی، اس لیے کہ یہی وقت سخت گرمی کا ہوتا ہے۔ (عمدة القاري: 41/4)