(1) راوئ حدیث ابو شعثاء جابر بن زید ؓ کا یہ کہنا کہ بارش کی بنا پر رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیا ہو، محل نظر ہے، کیونکہ انھیں خود بھی اس پر یقین نہیں، پھر وہ اس توجیہ پر قائم بھی نہیں رہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ میں نے کہا: اے ابو شعثاء! میرا خیال ہے کہ آپ نے ظہر کو مؤخر کیا اور عصر کو مقدم، اسی طرح مغرب کو مؤخر کیا ہوگا اور عشاء کو مقدم۔ ابو شعثاء نے جواب دیا: میرا بھی یہی خیال ہے۔ (صحیح البخاري، التطوع، حدیث: 1174) ایک رویت میں صراحت ہے کہ دشمن کے خوف اور بارش کے بغیر رسول اللہ ﷺ نے ان نمازوں کو جمع فرمایا۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1633(705)) نیز بارش کی وجہ سے جمع تقدیم ہوسکتی ہے، جمع تاخیر نہیں، جبکہ اس حدیث میں جمع تاخیر کا ذکر ہے۔ معلوم ہوا کہ بارش کی وجہ سے دو نمازوں کو جمع نہیں کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ بادلوں کی وجہ سے بھی ایسا نہیں ہوسکتا، کیونکہ ظہر اور عصر میں تو یہ احتمال ہوسکتا ہے، لیکن مغرب اور عشاء میں یہ ممکن نہیں، نیز بیماری کی وجہ سے بھی ایسا نہیں ہوسکتا، کیونکہ اگر بیماری کی وجہ سے ایسا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ باجماعت ایسا نہ کرتے، اس لیے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم تو بیمار نہیں تھے۔
(2) دو نمازوں کو جمع کرنے کے کئی اسباب ہیں، مثلا: بارش، سفر، خوف، بیماری یا کوئی اہم مصروفیت۔ پھر انھیں جمع کرنے کی دوصورتیں ہیں:
٭جمع حقیقی: ایک نماز کو دوسری نماز کے وقت اس طرح ادا کرنا کہ پہلی نماز کا وقت گزر چکا ہو یا دوسری نماز کا ابھی وقت نہ ہوا ہو، پھر اس کی دوصورتیں ممکن ہیں۔ ٭ جمع تقدیم، یعنی ظہر کے ساتھ عصر اور مغرب کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کرنا۔
٭ جمع تاخیر: یعنی عصر کے ساتھ ظہر اور عشاء کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھنا۔
٭ جمع صوری: پہلی نماز کو مؤخر کر کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو جلدی کرکے اول وقت میں پڑھ لینا۔ اس طرح بظاہر دونوں نمازیں جمع ہو جائیں گی، لیکن انھیں اپنے اپنے اوقات میں ہی ادا کیا جائے گا۔
(3) رسول اللہ ﷺ سے دوران سفر میں جمع تقدیم اور جمع تاخیر دونوں طرح پڑھنا ثابت ہے۔ جیسا کہ حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر رسول اللہ ﷺ اگر سورج ڈھلنے کے بعد سفر شروع کرتے تو ظہر اور عصر کو اس وقت پڑھ لیتے۔ اور اگر سورج ڈھلنے سے پہلے سفر شروع کرتے تو ظہر کو مؤخر کرکے عصر کے ساتھ پڑھتے۔ اسی طرح اگر سورج غروب ہونے کے بعد سفر شروع کرتے تو مغرب اور عشاء اسی وقت پڑھ لیتے اور اگر سورج غروب ہونے سے پہلے سفر شروع کرتے تو مغرب کو مؤخر کرکے عشاء کے ساتھ پڑھتے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1220) نیز حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ دوران سفر میں جب سورض ڈھل جاتا تو پڑاؤ کرتے، پھر ظہر اور عصر کو اکٹھا ادا کرنے کے بعد کوچ فرماتے۔ (السنن الکبرٰی للبیهقي: 162/3) حضرت ابن عباس ؓ سے بھی جمع تقدیم مروی ہے، فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ جب دوران سفر میں ہوا کرتے تو اگر اپنی منزل میں سورج ڈھل جاتا توظہر اور عصر کو جمع کرکے سفر پر روانہ ہوتے اور اگر زوال آفتاب سے پہلے روانہ ہوتے تو ظہر کو مؤخر کرکے عصر کے ساتھ پڑھ لیتے، مغرب اورعشاء میں بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ (مسند أحمد:367/1) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ دوران سفر میں نمازوں کو جمع کرنے کی دوصورتیں جائز ہیں۔ حالات وظروف کے پیش نظر جمع تقدیم اور جمع تاخیر دونوں طرح نماز ادا کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں۔ (4) سفر کے علاوہ حضر میں بھی دونمازوں کو جمع کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ کسی اہم ضرورت کے پیش نظر کبھی کبھار ایسا ہواور اسے عادت نہ بنایا جائے۔ جیسا کہ مذکورہ حدیث سے پتا چلتا ہے۔ ایک رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حضرت ابن عباس ؓ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیوں کیا؟تو ابن عباس ؓ نے جواب دیا کہ ایسا امت کی سہولت کے پیش نظر کیا گیا تاکہ یہ امت کسی تنگی ا ور مشقت میں مبتلا نہ ہو۔ (مسند أحمد: 223/1) اس رفع حرج کی وضاحت درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بصرے میں ظہر اور عصر کی نماز اکٹھی پڑھائی۔ درمیان میں کوئی وقفہ نہ تھا، اسی طرح مغرب اور عشاء کسی وقفے کے بغیر ادا کی اور آپ نے ایسا کسی مصروفیت کی وجہ سے کیا تھا۔ اس کے بعد حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر کی آٹھ رکعات کسی قسم کے وقفے کے بغیر ادا کی تھیں۔ (سنن النسائي، المواقیت، حدیث: 591) اس مصروفیت کی وضاحت بھی ایک روایت میں بیان ہوئی ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے ایک مرتبہ (بصرے میں) عصر کے بعد خطبہ دینا شروع کیا یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا اور ستارے چمکنے لگے۔ ایک آدمی دوران خطبہ میں نماز، نماز کی رٹ لگانے لگا۔ آپ نے فرمایا: مجھے سنت نہ سکھاؤ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ظہر و عصر اور مغرب و عشاء ملا کرپڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ راوئ حدیث حضرت عبداللہ بن شفیق کہتے ہیں کہ مجھے اس سلسلے میں شبہ پیدا ہوا تو میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کے پاس آیااور آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے اس بات کی تصدیق فرمائی۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث : 1636(705)) اس سے معلوم ہوا کہ شدید نا گزیر قسم کے حالات کے پیش نظر حالت اقامت میں بھی دونمازیں جمع کرکے پڑھی جاسکتی ہیں، تاہم سخت ضرورت کے بغیر ایسا کرنا جائز نہیں۔ ہمارے ہاں عام طور پر کاروباری حضرات کا معمول ہے کہ وہ سستی یا کاروباری مصروفیات کی وجہ سے دونمازیں جمع کرلیتے ہیں، یہ صحیح نہیں۔ بلکہ بعض روایات کے مطابق ایسا کرنا سخت گناہ ہے۔ ناگزیر حالات کے سوا ہر نماز کو اس کے وقت ہی پر پڑھنا ضروری ہے۔ والله أعلم۔ درج بالا وضاحت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث میں دونمازوں کو جمع کرنا جمع حقیقی ہے، جمع صوری نہیں، جیسا کہ بعض اکابر وقت کا دعویٰ ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس رخصت کی وجہ رفع حرج بتائی ہے جبکہ جمع صوری میں واضح طور پر انسان تنگی اور مشکل میں پھنس جاتا ہے۔ عام آدمی کوتو نماز کے ابتدائی اور آخری وقت کا علم ہی نہیں ہوتا، جبکہ جمع صوری کی شکل میں ان اوقات کو تلاش کرکے اس انداز سے ادا کرنا ہے کہ پہلی نماز کا وقت ختم ہوتے ہی دوسری نماز کا وقت شروع ہوجائے، ایسا کرنا مشکل ہی نہیں، بلکہ محال ہے۔ بظاہر ایک روایت اس موقف کے خلاف معلوم ہوتی ہے:حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے مزدلفہ کے علاوہ کبھی بھی رسول اللہ ﷺ کو نماز بے وقت پڑھتے نہیں دیکھا، چنانچہ آپ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو اکٹھا پڑھا تھا اور اگلے دن صبح کی نماز کو (عمومی) وقت سے پہلے اداکیاتھا۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1682) اس حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے اپنا مشاہدہ بیان کیا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ان کا مشاہدہ جملہ حقائق کے مطابق ہو۔ اس سے پہلے رسول اللہ ﷺ نےمیدان عرفات میں عصر کی نماز بھی اس کے وقت سے پہلے ظہر کے وقت ادا کی تھی جسے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان نہیں کرتے۔ الغرض شدید ضرورت اور ناگزیر عذر کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی دو نمازوں کو جمع نہیں فرمایا، اس لیے تمام احادیث اپنے اپنے مقام پر درست اور صحیح ہیں، ان میں کوئی تعارض یا اختلاف نہیں۔ والله أعلم۔ اس موقع پر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے عجیب موقف اختیار کیا ہے جو مبنی بر حقیقت نہیں۔ لکھتے ہیں: اس حدیث میں ''صلى بالمدينة'' کے الفاظ راوی کا وہم ہے، کیونکہ یہ واقعہ مدینہ کا نہیں بلکہ تبوک کاہے۔ راوی نے کہا کہ نمازوں کو جمع کرنے کا واقعہ سفر کے علاوہ پیش آیا، یعنی سیر کا نہیں، بلکہ دوران سفر میں بحالت اقامت کا ہے۔ دوسرے راوی نے اسے حضر کا واقعہ سمجھ لیا، اس کے بعد بعض راویوں نے اس کی تعبیر مدینہ سے کردی، لیکن اس موقف پر اعتراض ہوسکتا ہے کہ اس سے توثقہ راویوں پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ (شرح تراجم بخاري، ملخصا) لیکن شاہ صاحب کا یہ موقف بالبداہت غلط ہے، کیونکہ اگر یہ واقعہ سفر کا ہو تو نماز قصر پڑھی جاتی، یعنی چار رکعت ظہر اور عصر کی اور پانچ مغرب اور عشاء کی جبکہ حدیث میں ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺ نے آٹھ رکعات ظہر اور عصر کی اور سات رکعات مغرب اور عشاء کی ادا فرمائیں۔‘‘ لہٰذا یہ واقعہ تبوک کا نہیں بلکہ مدینہ طیبہ کا ہے اور بیان کرنے میں کسی راوی کو وہم نہیں ہوا۔ والله أعلم۔