اردو حاشیہ:
(1) عصر کے اول وقت (ایک مثل سایہ) کی تعیین کے لیے امام بخاری ؒ کو اپنی شرائط کے مطابق کوئی حدیث نہ مل سکی، اس لیے انھوں نے ایسی احادیث ذکر کی ہیں جن سے اول وقت کا استنباط ہوسکے، اگرچہ امام مسلم ؒ متعدد ایسی احادیث لائے ہیں جو واضح طور پر مقصود پر دلالت کرتی ہیں۔ مذکورہ روایت سے تعجیل عصر کا استدلال امام نووی ؒ نے بایں الفاظ نقل کیا ہے: سیدہ عائشہ ؓ کے حجرے کا صحن انتہائی چھوٹا تھا اور اس کی دیواریں اس قدر نیچی تھیں کہ ان کی اونچائی صحن کی پیمائش سے کچھ کم تھی، اس لیے جب دیوار کا سایہ ایک مثل ہوگا تو صحن کی دھوپ بالکل کنارے پر پہنچ جائے گی۔ (شرح النووي، حدیث :5/152 ،153)
(2) اس استدلال کی وضاحت یوں ہے کہ حجرے سے مراد صحن کی چار دیواری ہے، صحن کی پیمائش، چار دیواری سے کچھ زائد تھی، اس لیے ایک مثل کی دھوپ صحن میں رہے گی، لیکن دوسری مثل کے شروع ہوتے ہی دیوار پر چڑھنا شروع ہوجائے گی۔ چونکہ عائشہ ؓ کا فرمان ہے کہ نماز سے فراغت کے وقت دھوپ میرے صحن میں باقی ہوتی تھی، گویا عصر کی نماز مثل ثانی کے شروع ہوتے ہی پڑھ لی جاتی تھی۔ (فتح الباري: 35/2)