تشریح:
(1) حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کی نماز کے متعلق حضرت انس ؓ نے بایں الفاظ تبصرہ فرمایا ہے کہ میں نے اس نوجوان، یعنی عمر بن عبدالعزیز ؒ کے سوا کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا ہے جس کی نماز رسول اللہ ﷺ کی نماز سے زیادہ مشابہت رکھتی ہو۔ (مسند أحمد: 329/2 ۔ 330) حدیث میں مذکورہ واقعہ ان کے خلیفہ بننے سے پہلے کا ہے کیونکہ حضرت انس ؓ کے زمانے میں آپ ولید بن عبدالملک کی طرف سے مدینہ کے گورنر تھے اور آپ کے خلیفہ بننے سے پہلے حضرت انس ؓ وفات پا چکے تھے۔ ممکن ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کا نماز ظہر کو مؤخر کرنا کسی عذر کی بنا پرہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امرائے بنو امیہ کی عادت کے مطابق یہ تاخیر ہوئی ہو کیونکہ بنو امیہ کے حکمران نمازوں کو دیر سے پڑھنے کے عادی ہو چکے تھے، لیکن عمر بن عبدالعزیز ؒ کے جذبۂ اتباع سنت کے پیش نظر پہلی وجہ زیادہ قرین قیاس ہے۔ والله أعلم.
(2) مذکورہ روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے ساتھ پڑھی گئی نماز ظہر کے فوراً بعد حضرت انس ؓ نے نماز عصر ادا کی، اس سے پتا چلتا ہے کہ آپ نے نماز عصر اول وقت میں ادا کی۔ وهوالمقصود. ایک تفصیل روایت سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے: حضرت علاء بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ہم لوگ ظہرکی نماز سے فارغ ہو کر حضرت انس ؓ سے ملاقات کے لیے ان کے دولت کدے پر حاضر ہوئے۔ اس وقت آپ بصرے میں رہائش پزیر تھےاور ان کا گھر مسجد کے سامنے تھا۔ جب ہم آپ کے پاس گئے تو آپ نے فرمایا: تم نے عصر کی نمازپڑھ لی ہے؟ ہم نے عرض کیا: ابھی تو ہم نماز ظہر سے فارغ ہوئے ہو کر آئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اچھا اب تم نماز عصر پڑھ لو، چنانچہ ہم نے عصر کی نماز ادا کی۔ پھر آپ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ منافق کی نماز ہے کہ وہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے حتی کہ جب وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان آجاتا ہے تو اٹھ کر چار ٹھونگیں مار لیتا ہے، اس میں اللہ کاذکر برائے نام ہوتاہے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1412(622))
(3) نمازِ عصر کے وقت کے متعلق مندرجہ ذیل روایت بھی واضح ہے۔ حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز عصر پڑھائی، نماز سے فراغت کے بعد قبیلۂ بنو سلمہ کا ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ ہمارا ایک اونٹ ذبح کرنے کا پروگرام ہے، ہم چاہتے ہیں کہ آپ بھی اس پروگرام میں شمولیت فرمائیں، چنانچہ ہم رسول اللہ ﷺ کی معیت میں وہاں گئے تو اونٹ ابھی ذبح نہیں کیا گیا تھا، اس کے بعد اسے ذبح کیا گیا، اس کا گوشت کاٹ کر پکایا گیا، پھر ہم نے اسے سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے تناول کیا۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1414(624)) واضح رہے کہ قبیلۂ بنو سلمہ کے گھر مسجد نبوی سے بہت فاصلے پر تھے۔ ایک دفعہ انھوں نے مسجد نبوی کے قریب آنے کی خواہش کا اظہار کیا تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں روک دیا اور فرمایا کہ نماز کےلیے انسان جتنی دور سے چل کرآتا ہے، اسے زیادہ ثواب ملتا ہے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:656)