تشریح:
(1) یہ غزوہ 8 ہجری میں ہوا۔ خبط ایک درخت کے پتے ہیں جسے اونٹ کھاتے ہیں۔ اس جنگ میں بھوک کی وجہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو درختوں کے پتے کھانے پڑے، اس لیے اس جنگ کا نام "جیش الخبط" مشہور ہوا۔ اس وقت فاقے کا عالم تھا کہ فی کس ایک کھجور روزانہ ملتی تھی۔ ایسے حالات میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سمندر کی طرف گئے تو وہاں پہاڑ کی مانند ایک بہت بڑی مچھلی دیکھی۔ وہ اتنی بڑی تھی کہ اس کی دو پسلیاں کھڑی کی گئیں تو اونٹ ان کے نیچے سے نکل گیا اور پسلیوں کی بلندی تک نہ پہنچ سکا۔
(2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے مچھلی کو اضطراری حالت میں نہیں کھایا بلکہ یہ ان کے لیے حلال اور مباح تھی جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ جب ہم مدینہ طیبہ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ نے فرمایا: ’’یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے رزق تھا۔ اگر اس میں سے کوئی باقی بچا ہے تو ہمیں بھی کھلاؤ۔‘‘ چنانچہ انہوں نے کچھ باقی ماندہ ٹکڑا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا اور آپ نے تناول فرمایا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4362)