قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ البَحْرِ} [المائدة: 96])

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ عُمَرُ: صَيْدُهُ مَا اصْطِيدَ، وَ {طَعَامُهُ} [عبس: 24]: مَا رَمَى بِهِ وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: الطَّافِي حَلاَلٌ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «طَعَامُهُ مَيْتَتُهُ، إِلَّا مَا قَذِرْتَ مِنْهَا، وَالجِرِّيُّ لاَ تَأْكُلُهُ اليَهُودُ، وَنَحْنُ نَأْكُلُهُ» وَقَالَ شُرَيْحٌ، صَاحِبُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كُلُّ شَيْءٍ فِي البَحْرِ مَذْبُوحٌ» وَقَالَ عَطَاءٌ: «أَمَّا الطَّيْرُ فَأَرَى أَنْ يَذْبَحَهُ» وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: قُلْتُ لِعَطَاءٍ: صَيْدُ الأَنْهَارِ وَقِلاَتِ السَّيْلِ، أَصَيْدُ بَحْرٍ هُوَ؟ قَالَ: نَعَمْ، ثُمَّ تَلاَ: {هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَائِغٌ شَرَابُهُ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَمِنْ كُلٍّ تَأْكُلُونَ لَحْمًا طَرِيًّا} [فاطر: 12] وَرَكِبَ الحَسَنُ، عَلَيْهِ السَّلاَمُ عَلَى سَرْجٍ مِنْ جُلُودِ كِلاَبِ المَاءِ وَقَالَ الشَّعْبِيُّ: «لَوْ أَنَّ أَهْلِي أَكَلُوا الضَّفَادِعَ لَأَطْعَمْتُهُمْ» وَلَمْ يَرَ الحَسَنُ، بِالسُّلَحْفَاةِ بَأْسًا وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «كُلْ مِنْ [ص:90] صَيْدِ البَحْرِ نَصْرَانِيٍّ أَوْ يَهُودِيٍّ أَوْ مَجُوسِيٍّ» وَقَالَ أَبُوالدَّرْدَاءِ، فِي المُرِي: «ذَبَحَ الخَمْرَ النِّينَانُ وَالشَّمْسُ»

5494. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرًا، يَقُولُ: «بَعَثَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلاَثَ مِائَةِ رَاكِبٍ، وَأَمِيرُنَا أَبُو عُبَيْدَةَ، نَرْصُدُ عِيرًا لِقُرَيْشٍ، فَأَصَابَنَا جُوعٌ شَدِيدٌ حَتَّى أَكَلْنَا الخَبَطَ، فَسُمِّيَ جَيْشَ الخَبَطِ، وَأَلْقَى البَحْرُ حُوتًا يُقَالُ لَهُ العَنْبَرُ، فَأَكَلْنَا نِصْفَ شَهْرٍ وَادَّهَنَّا بِوَدَكِهِ، حَتَّى صَلَحَتْ أَجْسَامُنَا» قَالَ: «فَأَخَذَ أَبُو عُبَيْدَةَ ضِلَعًا مِنْ أَضْلاَعِهِ فَنَصَبَهُ فَمَرَّ الرَّاكِبُ تَحْتَهُ، وَكَانَ فِينَا رَجُلٌ، فَلَمَّا اشْتَدَّ الجُوعُ نَحَرَ ثَلاَثَ جَزَائِرَ، ثُمَّ ثَلاَثَ جَزَائِرَ، ثُمَّ نَهَاهُ أَبُو عُبَيْدَةَ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

عمر ؓ نے کہاکہ دریا کا شکار وہ ہے جو تدبیر یعنی جال وغیرہ سے شکار کیا جائے اور ” اس کا کھانا “ وہ ہے جسے پانی نے باہر پھینک دیا ہو ۔ ابوبکر ؓ نے کہا کہ جو دریا کا جانور مر کر پانی کے اوپر تیر کر آئے وہ حلال ہے ۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ ” اس کا کھانا “ سے مراد دریا کا مردار ہے ، سوا اس کے جو بگڑ گیا ہو ۔ بام ، جھینگے مچھلی کو یہودی نہیں کھاتے ، لیکن ہم ( فراغت سے ) کھاتے ہیں ، اور نبی کریم ﷺ کے صحابی شریح ؓ نے کہا کہ ہر دریائی جانور مذبو حہ ہے ، اسے ذبح کی ضرورت نہیں ۔ عطاءنے کہاکہ دریائی پرندے کے متعلق میری رائے ہے کہ اسے ذبح کرے ۔ ابن جریج نے کہا کہ میں نے عطاءبن ابی رباح سے پوچھا ، کیا نہروں کا شکار اور سیلاب کے گڑھوں کا شکار بھی دریائی شکار ہے ( کہ اس کا کھانا بلا ذبح جائز ہو ) کہاکہ ہاں ۔ پھر انہوں نے ( دلیل کے طور پر ) سورۃ نحل کی اس آیت کی تلاوت کی کہ ” یہ دریا بہت زیادہ میٹھا ہے اور یہ دوسرا دریا بہت زیادہ کھارا ہے اور تم ان میں سے ہر ایک سے تازہ گوشت ( مچھلی ) کھاتے ہو اور حسن رضی اللہ عنہ دریائی کتے کے چمڑے سے بنی ہوئی زین پر سوار ہوئے اور شعبی نے کہا کہ اگر میرے گھر والے مینڈک کھائیں تو میں بھی ان کو کھلاؤں گا اور حسن بصری کچھوا کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے ۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ دریائی شکار کھاؤ خواہ نصرانی نے کیا ہو یا کسی یہودی نے کیا ہو یا مجوسی نے کیا ہو اور ابو درداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ شراب میں مچھلی ڈال دیں اور سورج کی دھوپ اس پر پڑے تو پھر وہ شراب نہیں رہتی ۔تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس اثر کو اس لیے لائے کہ مچھلی کے شراب میں ڈالنے سے وہی اثر ہوتا ہے جو شراب میں نمک ڈالنے سے کیونکہ پھر شراب کی صفت اس میں باقی نہیں رہ جاتی ۔ یہ ان لوگوں کے مذہب پر مبنی ہے جو شراب کا سرکہ بنانا درست جانتے ہیں۔ بعضوں نے مری کو مکروہ رکھا ہے۔ مری اس کو کہتے ہیں کہ شراب میں نمک اور مچھلی ڈال کر دھوپ میں رکھ دیں۔ قسطلانی نے کہا کہ یہاں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شافعیہ کا خلاف کیا ہے کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ کسی خاص مجتہد کے پیرو نہیں ہیں بلکہ جس قول کی دلیل قوی ہوتی ہے اس کولے لیتے ہیں۔ آج کل اکثر مقلدین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو شافعی کہہ کر گراتے ہیں۔ ان کی یہ ہفوات ہر گز لائق توجہ نہیں ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پختہ اہلحدیث اور کتاب وسنت کے متبع ، تقلید جامد سے کوسوں دور خود فقیہ اعظم و مجتہد معظم تھے۔حضرت امام شعبی کا نام عامر بن شرحبیل بن عبدابو عمرو شعبی حمیری ہے۔ مثبت وثقہ وامام بزرگ مرتبہ تابعی ہیں۔ پانچ سو صحابہ کرام کو دیکھا ۔ اڑتالیس صحابہ سے احادیث روایت کی ہیں۔ سنہ17ھ میں پیدا ہویے اور سنہ 107ھ کے لگ بھگ میں وفات پائی ۔ امام شعبی حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے سب سے بڑے استاذ اور ابراہیم کے ہم عصر ہیں۔ امام شعبی احکام شرعیہ میں قیاس کے قائل نہ تھے۔ ان کے حلم وکرم کا یہ عالم تھا کہ رشتہ داری میں جس کے متعلق ان کو معلوم ہو جاتا کہ وہ قرض دار ہو کر مرے ہیں تو ان کا قرض خود ادا کردیتے ۔ امام شعبی نے کبھی اپنے کسی غلام ولونڈی کو زود کوب نہیں کیا ۔ کوفہ کے اکثر علماءکے بر خلاف حضرت عثمان و حضرت علی رضی اللہ عنہما ہر دو کے بارے میں اچھا عقیدہ رکھتے تھے۔ فتویٰ دینے میں نہایت محتاط تھے۔ ان سے جو مسئلہ پوچھا جاتا اگر اس کے بارے میں ان کے پاس کوئی حدیث نہ ہوتی تو لا ادری میں نہیں جانتا کہہ دیا کرتے ۔ اعمش کا بیان ہے کہ ایک شخص نے امام شعبی سے پوچھا کہ ابلیس کی بیوی کا کیا نام ہے۔ امام شعبی نے کہاکہ ذاک عرس ماشھدتہ مجھے اس کی شادی میں شرکت کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ ایک مرتبہ خراسان کی مہم پر قتیبہ بن مسلم باہلی امیر المجاہدین کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے اور کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ عبدالملک نے امام شعبی کو شاہ روم کے پاس سفیر بنا کر بھیجا تھا۔ ( تذکرۃ الحفاظ ، ج: 1 ص : 45 ط م

5494.

سیدنا جابر ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں روانہ کیا اس لشکر میں تین سو سوار تھے۔ ہمارے امیر ابو عبیدہ بن جراح تھے ہمارا کام قریش کے تجارتی قافلے کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا تھا اس دوران میں ہمیں سخت بھوک لگی نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ ہم نے درختوں کے پتے کھائے۔ اس بنا پر اس مہم کا نام ''جیش الخبط'' پڑ گیا تاہم سمندر نے ایک مچھلی باہر پھینکی جس کا نام عنبر تھا۔ ہم نے وہ مچھلی نصف ماہ تک کھائی اور اس کی چربی بطور مالش استعمال کرتے رہے جس سے ہمارے جسم طاقتور ہو گئے۔ پھر یمارے امیر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی پسلی کی ہڈی لی، اسے کھڑا کیا اور ایک سوار اس کے نیچے سے گزرا۔ ہمارے ساتھ ایک صاحب تھے جب ہمیں بھوک نے زیادہ تنگ کيا تو انہوں نے تین اونٹ ذبح کر دیے پھر (بھوک نے تنگ کیا تو اور) تین اونٹ (ذبح کر دیے) اس كے بعد ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے انہیں منع کر دیا۔