تشریح:
(1) عوالي کے متعلق مسافت کی تحدید حضرت امام زہری ؒ کی طرف سے ہے، یہ حدیث کا حصہ نہیں۔ عوالی مدینہ منورہ کے گرد ونواح کا وہ علاقہ کہلاتا تھا جہاں مشرقی جانب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے مکانات تھے۔ یہ علاقہ مدینہ طیبہ سے 2 سے 8 میل تک واقع تھا۔ اس کے بالمقابل مغربی جانب کے علاقے کو سوافل کہا جاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ جب نماز عصر ادا کرتے توآفتاب ابھی بلند ہوتا اور اس کی آب و تاب میں کمی نہ آئی ہوتی۔ اگر مقتدی حضرات میں سے کوئی عوالی کے علاقے تک جاتا تو بھی سورج بلند ہوتا، اگرچہ پہلے سے کم بلند ہوتا لیکن اس قدر اونچا ضرور ہوتا کہ ابھی اسے بلندی ہی سے تعبیر کیا جاتا۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز عصر پڑھنے میں جلدی کرتے تھے، کیونکہ نماز کے بعد چار میل کا فاصلہ طے کرنے کے باوجود سورج بلندی ہی سے تعبیر کیاجاتا تھا۔ (فتح الباري:39/2)
(2) ایک روایت میں حضرت انس ؓ کا بیان منقول ہے، فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ جب ہمیں نماز عصر پڑھاتے تو سورج ابھی سفید اور بلند ہوتا۔ نماز سے فراغت کے بعد میں مدینے کےدوسرے کنارے پر آباد اپنی قوم کے پاس جاتا اور انھیں نماز پڑھنے کے متعلق کہتا کہ ہم تو نماز سے فارغ ہوچکے ہیں، آپ بھی ادا کرلیں۔ اس حدیث کے بعد امام طحاوی ؒ لکھتے ہیں: ہم جانتے ہیں کہ حضرت انس ؓ کی قوم سورج کے زرد ہونے سے پہلے نماز ادا کرلیتی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بہت جلد نماز عصر ادا کرلیا کرتے تھے۔(شرح معاني الآثار:1/112)