تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ جب اونٹ بھاگ نکلا تو لوگ اس کے پیچھے دوڑے۔ اس دوران میں ایک آدمی نے اسے تیر مارا اور اسے زخمی کر کے روک لیا۔
(2) امام بخاری رحمہ اللہ نے ان روایات کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں اس امر کی صراحت ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے تیز پتھر یا بانس کی پھانک سے ذبح کرنے کی اجازت طلب کی۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو چیز بھی رگوں کو کھول دے اس کے ساتھ ذبح کر سکتے ہو، البتہ دانت اور ناخن سے ذبح نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ (المعجم الأوسط للطبراني: 238/5، و رقم: 7190، و فتح الباري: 781/9)
(3) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان کے ذبیحے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن أبي داود، الضحایا، حدیث: 2826) شیطان کے ذبیحے سے مراد ایسا جانور ہے جس کا ذبح کے وقت ذرا سا حلق کاٹ دیا جائے اور پوری رگیں نہ کاٹی جائیں اور وہ تڑپ تڑپ کر مر جائے۔ جاہلیت کے زمانے میں مشرک لوگ ایسا ہی کرتے تھے۔ چونکہ شیطان نے انہیں ایسے کام پر آمادہ کیا تھا، اس لیے اسے شیطان کا ذبیحہ کہا جاتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم ذبح کرو تو عمدہ طریقے سے ذبح کرو، وہ اس طرح کہ چھری کو تیز کر لو اور اپنے ذبیحے کو آرام پہنچاؤ۔‘‘ (صحیح مسلم، الصید والذبائح، حدیث: 5055 (1955))