تشریح:
قباء کا علاقہ مدینے سے تین میل کے فاصلے پر عوالی میں سے تھا۔ اس سے پہلے روایت (548) گزری ہے کہ ہم میں سے کوئی آدمی قبیلۂ بنو عمرو بن عوف کے ہاں جاتا۔ یہ قبیلہ قباء کے علاقے میں آباد تھا۔ علامہ کرمانی ؒ ان احادیث کے متعلق لکھتے ہیں: ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ نماز عصر کو جلد از جلد ادا کرلینا چاہیے، کیونکہ نماز عصر پڑھنے کے بعد کئی میل کی مسافت طے کرنا، پھر سورج کی آب وتاب کا قائم رہنا تبھی ہو سکتا ہے، جب اس نماز کو ایک مثل سائے کے وقت پڑھ لیا جائے۔ ایسا صرف بڑے دنوں ہی میں ہوسکتا ہے۔ (شرح الکرماني:196/4) ایک حدیث میں ہے، رسول اللہ ﷺ نماز عصر ادا کرنے کے بعد خود عوالی تشریف لے جاتے تو سورج ابھی بلند ہوتا تھا اور عوالی کے بعض علاقے تین یا چار میل کی مسافت پر تھے۔ (صحیح البخاري، الاعتصام، حدیث:7329) اس روایت میں امام مالک ؒ کے حوالے سے لفظ '' قباء'' آیا ہے۔ اس کے متعلق بعض محدثین نے کہا ہے کہ یہ امام مالک کا وہم ہے، کیونکہ امام زہری ؒ سے امام مالک کے علاوہ کوئی راوی یہ لفظ بیان نہیں کرتا۔ لیکن درست بات یہ ہے کہ اس لفظ کے بیان کرنے میں امام مالک متفرد نہیں ہیں، پھر جب دیگر روایات میں لفظ عوالی آیا ہے اور قباء بھی عوالی کے علاقہ جات کا ایک حصہ ہے تو لفظ قباء کو وہم سے تعبیر کرنے کے بجائے اسے عوالی کے اجمال کی وضاحت قرار دینا زیادہ موزوں ہے۔ امام بخاری ؒ نے لفظ قباء والی روایت کو دیگر روایات کے بعد بیان کرکے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ امام مالک کی مذکورہ روایت دیگر روایات کی تفسیر ہے۔ (فتح الباري:40/2)