تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ اپنی طبعی کراہت کی وجہ سے اسے کھانا پسند نہیں کیا لیکن آپ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کے کھانے سے منع بھی نہیں کیا، اس لیے جسے پسند ہو کھا لے اور جسے پسند نہ ہو وہ نہ کھائے۔ کسی کا کھانا نہ کھانا ایک اختیاری امر ہے مگر سانڈا کھانا جائز اور حلال ہے۔
(2) عربوں کے ہاں سانڈا کھانے کا عام رواج تھا بلکہ تقریبات میں خصوصی کھانے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا، چنانچہ یزید بن اصم کہتے ہیں کہ مدینہ طیبہ میں ہم ایک شادی کی تقریب میں شامل ہوئے تو اہل خانہ نے ہمیں تیرہ سانڈے پیش کیے۔ ہم میں سے کچھ حضرات نے کھایا اور بعض نے اسے ترک کر دیا۔ (صحیح مسلم، الأطعمة، حدیث: 5040 (1948)) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے بہت لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے۔ یہ چرواہوں کی خوراک ہے۔ اگر میرے پاس ہوں تو میں انہیں ضرور کھاؤں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طبعی کراہت کی وجہ سے انہیں نہیں کھایا تھا۔ (صحیح مسلم، الأطعمة، حدیث: 5042 (1950))
(3) بالعموم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انہیں نہ کھانے کے متعلق دو سبب بیان کیے جاتے ہیں: ٭ مکہ مکرمہ اور اس کے آس پاس سانڈے نہیں پائے جاتے تھے، اس لیے آپ کو گھن آتی تھی اور آپ نے اسے ناپسند فرمایا اور کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ ٭ اس میں ایک ناگوار سی بو ہوتی ہے، اس لیے آپ نے اسے کھانا پسند نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا: میرے پاس اللہ کی طرف سے آنے والے (فرشتے) ہیں جیسا کہ آپ لہسن وغیرہ نہیں کھاتے تھے۔ (فتح الباري: 822/9) بہرحال آپ نے سانڈا نہیں کھایا، خواہ اس کی کوئی بھی وجہ ہو، لیکن ناپسندیدگی کے باوجود آپ نے اسے حرام قرار نہیں دیا بلکہ ایک روایت کے الفاظ ہیں: ’’تم کھاؤ کیونکہ یہ حلال ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الأطعمة، حدیث: 5032 (1944))