تشریح:
(1) اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئےعلامہ سندھی ؒ لکھتے ہیں: امت محمدیہ کی یہ خصوصیت ہے کہ جو بھی نیکی کاکام غروب آفتاب تک کرے گی انھیں اس کا اجرو ثواب مکمل صورت میں ملے گا، چنانچہ اس امت کا جو فرد غروب آفتاب سے پہلے نماز عصر پڑھے گا، خواہ ایک رکعت ہی کیوں نہ ہو، اسے پوری نماز کا ثواب ملے گا۔ حدیث کی باب سے یہی مطابقت ہے۔ (حاشیة السندي:106/1) حافظ ابن حجر ؒ ، مہلب کے حوالے سے لکھتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات جزوی کام کرنے پر پورے کام کا اجر دیا جاتا ہے، کیونکہ عصر سے لے کر غروب آفتاب تک کام کرنے پر پورے دن کی اجرت عطا کی گئی۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے ایک رکعت پانے والے کو پوری نماز کا ثواب دیا جائے، نیز حدیث میں وہ جز اورعمل جس پر پورا اجر دیا گیا ہے دن کے چوتھائی حصے کا عمل ہے، یعنی نماز عصر سے غروب آفتاب تک کا عمل، دن کا ایک چوتھائی ہے، جس طرح اس چوتھائی وقت میں کام کرنے پر پورا اجر دیا گیا، اسی طرح ایک رکعت پانے والے کو چار رکعت پانے والے کی طرح قرار دیا گیا، گویا مثال اور ممثل لہ میں چوتھائی عمل کو پورا عمل قرار دینے کی بات مشترک ہے۔ (فتح الباري: 53/2) اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصود منتہائے عصر کا بیان ہے، کیونکہ حدیث میں دن کو تین حصوں میں تقسیم کرکے اسے تین گروہوں کےساتھ مخصوص کیا گیا ہے: پہلا حصہ صبح سے دوپہر تک یہود کے حق میں ہے، اس میں دوسرا کوئی شریک نہیں۔ پھر دوسرا حصہ ظہر سے عصر تک اہل انجیل کے حق میں ہے اور اس میں بھی کوئی شریک نہیں۔ پھر تیسرا حصہ عصر سے غروب آفتاب تک کا ہے۔ معلوم ہوا کہ جس طرح ظہر سے عصر تک کا وقت ایک ہے، اسی طرح عصر سے مغرب تک کا وقت بھی ایک رہنا چاہیے۔ اس سے امام بخاری ؒ کا مدعا ثابت ہوگیا کہ عصر کے وقت انتہاغروب آفتاب ہے۔
(2) کچھ حضرات کا موقف ہے کہ اس حدیث کے پیش نظر عصر کا وقت دو مثل سایہ ہونے پر شروع ہونا چاہیے، کیونکہ اہل انجیل نے کہا کہ ہم نے زیادہ کام کیا ہے اور یہ اسی صورت میں درست ہوسکتا ہے جب ظہر سے عصر تک کا وقت، عصر سے مغرب تک کے وقت سے زیادہ ہو۔ اس مفروضے کا جواب علامہ کرمانی ؒ نے بایں طور دیا ہے کہ ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ اگر عصر کا وقت ایک مثل پر شروع ہوتو ظہر سے عصر تک کا وقت، عصر سے مغرب تک کے وقت سے کم رہتا ہے۔ اگر ایسا تسلیم بھی کرلیا جائے توبھی یہ کہاں ہے کہ دونوں گروہوں میں سے ہر گروہ کا کام مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ بلکہ دونوں گروہوں کا کام ملا کر مسلمانوں کے کام سے زیادہ ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلے گروہ کا کام زیادہ ہو اور دوسرے کا زیادہ نہ ہو لیکن تغلیباً دونوں گروہوں کےلیے ایک جیسے الفاظ استعمال کر لیے گئے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کام کے زیادہ ہونے سے وقت کا زیادہ ہونا لازم نہیں آتا، کیونکہ کم وقت میں زیادہ کام ہوسکتا ہے۔ (شرح الکرماني:202/2) تاریخی اعتبار سے بھی یہ بات ثابت شدہ ہے کہ قلت و کثرت سے مراد وقت نہیں بلکہ کام ہے، کیونکہ حضرت عیسیٰ ؑ اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان چھ سوسال کا وقفہ ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ سے اب تک 1432 سال گزر چکے ہیں، اس لیے کام کے زیادہ ہونے سے وقت کا زیادہ ہونا ضروری نہیں۔