تشریح:
(1) حدیث میں مذکور گناہوں کا مرتکب ایمان سے محروم ہو جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کر لے تو اس کے دل میں ایمان لوٹ آتا ہے اور اگر یہی کام کرتا رہے اور اسی حالت میں موت آ جائے تو وہ بے ایمان ہو کر مرتا ہے۔
(2) اس حدیث میں شراب نوشی کرنے والے کے متعلق بہت سخت وعید ہے کہ اس حالت میں اگر موت آ جائے تو ایمان سے محرومی کا باعث ہے۔ چنانچہ ایک موقوف حدیث میں ہے: شراب سے احتراز کرو کیونکہ یہ ام الخبائث ہے۔ ایمان اور شراب دونوں اکٹھے اور یکجا نہیں رہ سکتے، ان میں ایک، دوسرے سے انسان کو فارغ کر دیتا ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیهقي: 288/8)
(3) اہل سنت کا موقف ہے کہ شراب نوشی کرنے والا کامل ایمان سے محروم ہو جاتا ہے۔ اگر وہ اسے اپنے لیے حلال سمجھتا ہے تو مطلق ایمان سے محرومی کا باعث ہے۔ واللہ اعلم۔ (فتح الباری: 44/10) حضرت عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اس سے ایمان کیسے نکال لیا جاتا ہے؟ انہوں نے فرمایا: اس طرح۔ انہوں نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ میں ڈالیں پھر انہیں نکال لیا۔ اگر وہ توبہ کرے تو ایمان اس کی طرف اس طرح لوٹ آتا ہے۔ پھر انہوں نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالیں۔ (صحیح البخاري، الحدود، حدیث: 6809)