تشریح:
(1) گزشتہ احادیث کی طرح اس حدیث میں بھی امام بخاری ؒ کا مقصود نماز عصر کا آخری وقت بتانا ہے، چنانچہ حدیث سے پتا چلتا ہے کہ کام کی مدت غروب آفتاب ہے اور عصر سے مغرب تک کے وقت کو ایک وقت قرار دیا گیا ہے، نیز اس وقت کا کام نماز عصر ہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز عصر کا وقت غروب آفتاب تک ہے۔ پھر اس حدیث میں جو مثال پیش کی گئی ہے، اس میں پہلے گروہ سے مراد اہل تورات، یعنی یہودی ہیں جنھیں موسوی شریعت کی پیروی کا حکم دیا گیا تھا، پھر جب حضرت عیسیٰ ؑ تشریف لائے تو ان کے پیچھے چلنے کا حکم دیا گیا، چنانچہ وہ اس سے بھاگ گئے۔ دوسرا گروہ اہل انجیل، یعنی عیسائیوں کا ہے جو عیسیٰ ؑ پر ایمان لائے اور اس وقت کی شریعت پر عمل پیرا رہے، لیکن جب رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی تو انھیں آپ پر ایمان لانے کا حکم ہوا، انھوں نے اس بات سے انکار کردیا۔ تیرے گروہ سے مراد ہم مسلمان ہیں جو رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائے اور قیامت تک آپ کی لائی ہوئی شریعت پر عمل پیرا رہنے کےلیے تیار ہوئے۔ واضح رہے کہ ابن عمر اور ابو موسیٰ اشعری ؓ کی احادیث میں دو الگ الگ واقعات بیان ہوئے ہیں۔ ان میں اتنی بات تو مشترک ہے کہ تین تین فریق ہیں اور ہرفریق سے معاملہ الگ الگ ہے، لیکن ان میں حسب ذیل فرق ہے:
٭ پہلی روایت میں مدت اجارہ کی صراحت نہیں جبکہ دوسری رویت میں رات تک کی تصریح ہے۔
٭پہلی روایت میں ہے کہ پہلے دونوں گروہ کام کرتے کرتے عاجز ہوگئے اور انھیں ایک ایک قیراط دیا گیا جبکہ دوسری روایت میں ہے کہ انھوں نے اجرت لینے سے صاف انکار کردیا۔
٭پہلی روایت میں یہودونصاریٰ کے ان لوگوں کا حال بیان ہوا ہے جو اپنے دور میں دین پر قائم رہے اور اس پر عمل کیا لیکن اس کے منسوخ ہونے سے پہلے فوت ہو گئے اور دوسری حدیث میں ان لوگوں کا حال بیان ہوا ہے جو دین میں تحریف کرنے کے مرتکب ہوئے اور اس سے بے زاری کا اظہارکیا۔ والله أعلم.