تشریح:
(1) حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی شہادت کے بعد 74ھ میں خلیفہ عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو مدینے کا گورنر تعینات کیا۔ حرمین کا تمام علاقہ اس کے زیر نگیں تھا۔ خلفائے بنو امیہ کو نمازیں دیر سے پڑھنے کی عادت تھی۔ حجاج بھی انھی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نمازوں کو بہت دیر سے پڑھتا تھا۔ ان حالات کے پیش نظر چند درد مند حضرات نے سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے نمازوں کے اوقات کے متعلق سوال کیا کہ رسول اللہ ﷺ نماز پنجگانہ کن اوقات میں ادا کرتے تھے؟ تو اپ نے یہ حدیث بیان فرمائی ۔
(2) امام بخاری ؒ کا مقصود صرف نماز مغرب کا وقت بیان کرنا ہے کہ سورج کی ٹکیہ آنکھوں سے اوجھل ہوجائے تو نماز مغرب کا وقت شروع ہو جاتا ہے بشرطیکہ دیکھنے والے اور سورج کے درمیان کوئی رکاوٹ نہ ہو، جیسا کہ بعض روایات میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نماز مغرب اس وقت پڑھتے جب سورج غروب ہوجاتا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:417) واضح رہے کہ نماز عشاء کے وقت تولوگوں کا خیال رکھا جاتا تھا کہ اگر جمع ہوجاتے تو جلدی پڑھ لیتے، بصورت دیگر ان کے آنے کا انتظار کیا جاتا لیکن صبح کے وقت لوگوں کا انتظار نہ ہوتا بلکہ اسے اندھیرے میں پڑھ لیا جاتا تھا۔ (فتح الباري:56/2)