باب:اس بیان میں کہ نماز عصر چھوڑ دینے پر کتنا گناہ ہے ۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: One who omits (does not offer) the 'Asr prayer (intentionally))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
560.
حضرت ابوملیح سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم ابو آلود دن میں حضرت بریدہ ؓ کے ہمراہ ایک جنگ میں شریک تھے، انہوں نے فرمایا: نماز عصر جلدی پڑھ لو کیونکہ نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی، اس کا عمل ضائع ہو گیا۔‘‘
تشریح:
(1) موسم کے ابر آلود ہونے کی بنا پر اندیشہ تھا کہ مبادا تاخیر کرتے ہوئے سورج غروب ہوجائے اور نماز کا وقت نکل جائے۔ پھر یہ بھی خطرہ تھا کہ لوگ خرابئ موسم کی وجہ سے انتظامات میں مشغول ہوکر نماز میں دیر نہ کردیں، اس لیے حضرت بریدہ ؓ نے نماز عصر کی ادائیگی کے متعلق غیر معمولی اہتمام کیا، نیز نماز عصر کی اہمیت دیگر نمازوں کے مقابلے میں زیادہ ہے کیونکہ اس وقت اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور فرشتے بھی اپنی باری تبدیل کرنے کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ بھی اس وقت خریدوفروخت اور تجارتی لین دین میں مصروف ہوتے ہیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کی بروقت ادئیگی کے متعلق خصوصی حکم دیا ہے اور اس کے چھوڑدینے پر سنگین وعید سنائی ہے۔ (2) معتزلہ کے نزدیک ارتکاب کبیرہ سے انسان کافر ہوجاتا ہے۔ وہ اس قسم کی احادیث سے دلیل لیتے ہیں۔ اسی طرح بعض صحابہ نے بھی کہا ہے کہ تارک نماز دین اسلام سے خارج ہے، جبکہ جمہور محدیثین کے نزدیک ارتکاب کبیرہ سے انسان کافر نہیں ہوتا اور نہ ترک نماز سے انسان اپنے ایمان ہی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ﴾’’اور جو ایمان کے بجائے کفر اختیار کرے گا اس کا عمل ضائع ہوجائے گا۔‘‘(المائدة:5:5) اس آیت سے یہ بات نکلتی ہے کہ جس نے ایمان کے بجائے کفر اختیار نہیں کیا اس کے اعمال ضائع نہ ہوں جبکہ حدیث میں نماز عصر چھوڑ دینے سے عمل کے ضائع ہونے کی وعید ہے۔ گویا آیت کا مفہوم اور حدیث کا منطوق ظاہری طور پر ایک دوسرے کےے مخالف ہیں۔ اس کے علماء نے مختلف توجیہات بیان کی ہیں، مثلا:٭ اگر فرضیت کا انکار کرتےہوئے نماز ترک کی تو اس کا عمل ضائع ہوجاتا ہے۔ ٭حبطِ عمل سے مراد تشبیہ ہے کہ نماز عصر ترک کرنے والا انسان اس قدر محروم و بدنصیب ہے، جیسے وہ انسان جس کےتمام عمل ضائع ہوجائیں۔ (3) راجح بات یہ ہے کہ نماز ترک نماز کی شدت اور نزاکت کو بیان کرنے کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں تاکہ اس سنگین جرم سے احتراض کیا جائے، اس کا ظاہری مفہوم مراد نہیں ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے۔’’مومن کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الإیمان، حدیث:48) حالانکہ قرآن کریم نے باہمی جنگ و قتال کرنے والوں کو مومن ہی کہا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا۔۔۔۔﴾’’اگر اہل ایمان کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں.....‘‘(الحجرات49: 9) اس قرآنی آیت کی روشنی میں مذکورہ حدیث میں کفر سے مراد حقیقی کفر نہیں۔ اسی طرح حدیث میں حبط عمل سے مراد حقیقی حبط عمل نہیں بلکہ جرم کی سنگینی اور شدت کو بیان کرنے لیے یہ الفاظ اختیار کیے گئے ہیں، کیونکہ کفروشرک اور ارتداد ہی ایسے اعمال ہیں جو اعمال کی بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ (4) قرآن کریم کی تصریحات کے مطابق حبط اعمال (بربادئ اعمال) کے تین بڑے اسباب ہیں:٭ ایمان کے بعد شرک کا ارتکاب کرنا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ ﴿٨٨﴾) ’’اگر وہ لوگ، یعنی انبیائے کرام علیہم السلام بھی شرک کرتے تو ان کا سب کیا کرایا برباد ہو جاتا۔‘‘(الانعام6: 88) ٭ایمان لانے کے بعد ارتداد کی روش اختیار کرنا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ﴾’’اور تم میں سے اگر کوئی اپنے دین سے برگشتہ ہوجائے پھر اس حالت میں مرجائے کہ وہ کافر ہی ہو تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیاوآخرت میں برباد ہوگئے۔‘‘(البقرة: 2: 217) ٭رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی اور گستاخی کرنا،ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ﴾ ﴿٢﴾ ’’اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ اس کے سامنے اس طرح اونچی آواز سے بولو جیسے تم ایک دوسرے سے بولتے ہو،ایسا نہ ہو کہ تمھارے اعمال برباد ہو جائیں اور تمھیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔‘‘(الحجرات49: 2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
547
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
553
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
553
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
553
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
پہلا عنوان نماز عصر فوت ہونے کے متعلق تھا اور مذکورہ باب نماز عصر ترک کرنے کے بارے میں ہے۔یہ تکرار نہیں کیونکہ پہلے عنوان میں غیر اختیاری طور پر نماز عصر فوت ہونے کا حکم بیان ہوا تھا اور یہ باب اختیاری طور پر نماز عصر چھوڑ دینے سے متعلق ہے۔دوسرا فرق یہ ہے کہ غیراختیاری طور پر نماز عصر فوت ہونے پر انسان کے متعلقات کا نقصان ہے جبکہ اختیاری طور پر نماز عصر چھوڑ دینے سے ذاتی نقصان کی وعید ہے۔
حضرت ابوملیح سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم ابو آلود دن میں حضرت بریدہ ؓ کے ہمراہ ایک جنگ میں شریک تھے، انہوں نے فرمایا: نماز عصر جلدی پڑھ لو کیونکہ نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی، اس کا عمل ضائع ہو گیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) موسم کے ابر آلود ہونے کی بنا پر اندیشہ تھا کہ مبادا تاخیر کرتے ہوئے سورج غروب ہوجائے اور نماز کا وقت نکل جائے۔ پھر یہ بھی خطرہ تھا کہ لوگ خرابئ موسم کی وجہ سے انتظامات میں مشغول ہوکر نماز میں دیر نہ کردیں، اس لیے حضرت بریدہ ؓ نے نماز عصر کی ادائیگی کے متعلق غیر معمولی اہتمام کیا، نیز نماز عصر کی اہمیت دیگر نمازوں کے مقابلے میں زیادہ ہے کیونکہ اس وقت اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور فرشتے بھی اپنی باری تبدیل کرنے کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ بھی اس وقت خریدوفروخت اور تجارتی لین دین میں مصروف ہوتے ہیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کی بروقت ادئیگی کے متعلق خصوصی حکم دیا ہے اور اس کے چھوڑدینے پر سنگین وعید سنائی ہے۔ (2) معتزلہ کے نزدیک ارتکاب کبیرہ سے انسان کافر ہوجاتا ہے۔ وہ اس قسم کی احادیث سے دلیل لیتے ہیں۔ اسی طرح بعض صحابہ نے بھی کہا ہے کہ تارک نماز دین اسلام سے خارج ہے، جبکہ جمہور محدیثین کے نزدیک ارتکاب کبیرہ سے انسان کافر نہیں ہوتا اور نہ ترک نماز سے انسان اپنے ایمان ہی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ﴾’’اور جو ایمان کے بجائے کفر اختیار کرے گا اس کا عمل ضائع ہوجائے گا۔‘‘(المائدة:5:5) اس آیت سے یہ بات نکلتی ہے کہ جس نے ایمان کے بجائے کفر اختیار نہیں کیا اس کے اعمال ضائع نہ ہوں جبکہ حدیث میں نماز عصر چھوڑ دینے سے عمل کے ضائع ہونے کی وعید ہے۔ گویا آیت کا مفہوم اور حدیث کا منطوق ظاہری طور پر ایک دوسرے کےے مخالف ہیں۔ اس کے علماء نے مختلف توجیہات بیان کی ہیں، مثلا:٭ اگر فرضیت کا انکار کرتےہوئے نماز ترک کی تو اس کا عمل ضائع ہوجاتا ہے۔ ٭حبطِ عمل سے مراد تشبیہ ہے کہ نماز عصر ترک کرنے والا انسان اس قدر محروم و بدنصیب ہے، جیسے وہ انسان جس کےتمام عمل ضائع ہوجائیں۔ (3) راجح بات یہ ہے کہ نماز ترک نماز کی شدت اور نزاکت کو بیان کرنے کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں تاکہ اس سنگین جرم سے احتراض کیا جائے، اس کا ظاہری مفہوم مراد نہیں ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے۔’’مومن کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الإیمان، حدیث:48) حالانکہ قرآن کریم نے باہمی جنگ و قتال کرنے والوں کو مومن ہی کہا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا۔۔۔۔﴾’’اگر اہل ایمان کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں.....‘‘(الحجرات49: 9) اس قرآنی آیت کی روشنی میں مذکورہ حدیث میں کفر سے مراد حقیقی کفر نہیں۔ اسی طرح حدیث میں حبط عمل سے مراد حقیقی حبط عمل نہیں بلکہ جرم کی سنگینی اور شدت کو بیان کرنے لیے یہ الفاظ اختیار کیے گئے ہیں، کیونکہ کفروشرک اور ارتداد ہی ایسے اعمال ہیں جو اعمال کی بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ (4) قرآن کریم کی تصریحات کے مطابق حبط اعمال (بربادئ اعمال) کے تین بڑے اسباب ہیں:٭ ایمان کے بعد شرک کا ارتکاب کرنا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ ﴿٨٨﴾) ’’اگر وہ لوگ، یعنی انبیائے کرام علیہم السلام بھی شرک کرتے تو ان کا سب کیا کرایا برباد ہو جاتا۔‘‘(الانعام6: 88) ٭ایمان لانے کے بعد ارتداد کی روش اختیار کرنا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ﴾’’اور تم میں سے اگر کوئی اپنے دین سے برگشتہ ہوجائے پھر اس حالت میں مرجائے کہ وہ کافر ہی ہو تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیاوآخرت میں برباد ہوگئے۔‘‘(البقرة: 2: 217) ٭رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی اور گستاخی کرنا،ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ﴾ ﴿٢﴾ ’’اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ اس کے سامنے اس طرح اونچی آواز سے بولو جیسے تم ایک دوسرے سے بولتے ہو،ایسا نہ ہو کہ تمھارے اعمال برباد ہو جائیں اور تمھیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔‘‘(الحجرات49: 2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ہشام بن عبداللہ دستوائی نے بیان کیا، کہا ہمیں یحییٰ بن ابی کثیر نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے خبر دی۔ انھوں نے ابوالملیح سے، کہا ہم بریدہ ؓ کے ساتھ ایک سفر جنگ میں تھے۔ ابر و بارش کا دن تھا۔ آپ نے فرمایا کہ عصر کی نماز جلدی پڑھ لو۔ کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی، اس کا نیک عمل ضائع ہو گیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Al-Mahh (RA): We were with Buraida in a battle on a cloudy day and he said, "Offer the 'Asr prayer early as the Prophet (ﷺ) said, "Whoever leaves the 'Asr prayer, all his (good) deeds will be annulled."