تشریح:
(1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ عشاء کہ لیے لفظ"عتمة" بولا جا سکتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، جبکہ مغرب پر لفظ "عشاء" درست نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ایسا ثابت نہیں۔ عشاء کوعتمہ کہنے کے متعلق متقدمین میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ تو عتمہ کہنے والوں پرناراض ہوتے تھے، جبکہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ سے جواز منقول ہے۔ بعض حضرات نے اس اطلاق کو خلاف اولیٰ قرار دیا ہے اور یہی راجح ہے۔ (فتح الباري :60/2)
(2) رسول اللہ ﷺ سے نماز عشاء کوعتمہ کہنے کی نہی وارد ہے جبکہ بعض اوقات اس لفظ کو نماز عشاء کےلیے استعمال بھی کیا گیا ہے۔ اس کے درمیان تطبیق کی دوصورتیں ہیں:٭نہی تحریم کےلیے نہیں بلکہ تنزیہ کےلیے ہے اور لفظ عتمہ کو عشاء کےلیے استعمال کرنا جائز ہے۔٭لفظ عتمہ ان لوگوں کےسامنے بولا گیا جو عشاء کے نام کو نہیں جانتے تھے اور ان کے ہاں یہ زیادہ مشہور نہ تھا، یعنی عشاء کےلیے عتمہ کا استعمال بطور نام نہیں بلکہ تعارف کے لیے استعمال کیا گیا۔ (شرح النووي: 208/4)