قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ (بَابُ ذِكْرِ العِشَاءِ وَالعَتَمَةِ، وَمَنْ رَآهُ وَاسِعًا)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: «أَثْقَلُ الصَّلاَةِ عَلَى المُنَافِقِينَ العِشَاءُ وَالفَجْرُ» وَقَالَ: «لَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي العَتَمَةِ وَالفَجْرِ» قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: وَالِاخْتِيَارُ: أَنْ يَقُولَ العِشَاءُ، لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَمِنْ بَعْدِ صَلاَةِ العِشَاءِ} [النور: 58] وَيُذْكَرُ عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: «كُنَّا نَتَنَاوَبُ النَّبِيَّ ﷺ عِنْدَ صَلاَةِ العِشَاءِ فَأَعْتَمَ بِهَا» وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةُ: «أَعْتَمَ النَّبِيُّ ﷺ بِالعِشَاءِ» وَقَالَ بَعْضُهُمْ، عَنْ عَائِشَةَ: «أَعْتَمَ النَّبِيُّ ﷺ بِالعَتَمَةِ» وَقَالَ جَابِرٌ: «كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي العِشَاءَ» وَقَالَ أَبُو بَرْزَةَ: «كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُؤَخِّرُ العِشَاءَ» وَقَالَ أَنَسٌ: «أَخَّرَ النَّبِيُّ ﷺ العِشَاءَ الآخِرَةَ» وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ، وَأَبُو أَيُّوبَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ ؓ: «صَلَّى النَّبِيُّ ﷺ المَغْرِبَ وَالعِشَاءَ»

564. حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَالِمٌ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً صَلاَةَ العِشَاءِ، وَهِيَ الَّتِي يَدْعُو النَّاسُ العَتَمَةَ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَأَقْبَلَ عَلَيْنَا، فَقَالَ: «أَرَأَيْتُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ، فَإِنَّ رَأْسَ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا، لاَ يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ أَحَدٌ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے نقل کر کے فرمایا، کہ منافقین پر عشاء اور فجر تمام نمازوں سے زیادہ بھاری ہیں، اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ کاش! وہ سمجھ سکتے کہ عتمہ ( عشاء ) اور فجر کی نمازوں میں کتنا ثواب ہے۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ علیہ ) کہتے ہیں کہ عشاء کہنا ہی بہتر ہے۔ کیونکہ ارشاد باری ہے ومن بعد صلوٰۃ العشاء ( میں قرآن نے اس کا نام عشاء رکھ دیا ہے ) ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ ہم نے عشاء کی نماز نبی ﷺ کی مسجد میں پڑھنے کے لیے باری مقرر کر لی تھی۔ ایک مرتبہ آپ نے اسے رات گئے پڑھا۔ اور ابن عباس ؓ اور عائشہ ؓ نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ نے نماز عشاء دیر سے پڑھی۔ بعض نے حضرت عائشہ ؓ نے نقل کیا کہ نبی کریم ﷺ نے “ عتمہ ” کو دیر سے پڑھا۔ حضرت جابر ؓ نے کہا کہ نبی ﷺ “ عشاء ” پڑھتے تھے۔ ابوبرزہ اسلمی ؓ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ عشاء میں دیر کرتے تھے۔ حضرت انس ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ آخری عشاء کو دیر میں پڑھتے تھے۔ ابن عمر، ابوایوب اور ابن عباس ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے مغرب اور عشاء پڑھی۔تشریح :امام المحدثین رحمۃ اللہ علیہ نے ان جملہ احادیث اور آثار کو یہاں اس غرض سے نقل کیاہے کہ بہتر ہے عشاءکو لفظ عشاءسے ہی موسوم کیاجائے۔ اس پر بھی اگرکسی نے لفظ عتمہ اس کے لیے استعمال کرلیاتو یہ بھی درجہ جواز میں ہے۔ صحابہ کرام ؓ کا عام معمول تھا کہ وہ نبی کریم ﷺ کی ہدایات سے آگاہ رہنا اپنے لیے ضروری خیال کرتے تھے، جو حضرات مسجد نبوی سے دور دراز سکونت رکھتے تھے، انھوں نے آپس میں باری مقرر کررکھیتھی۔ جو بھی حاضر درباررسالت ہوتا، دیگر صحابہ ؓ ان سے حالات معلوم کرلیا کرتے تھے۔ ابوموسیٰ اشعری ؓ بھی ان ہی میں سے تھے۔ یہ ہجرت حبشہ سے واپسی کے بعد مدینہ میں کافی فاصلہ پر سکونت پذیر ہوئے اور انھوں نے اپنے پڑوسیوں سے مل کر دربار رسالت میں حاضری کی باری مقرر کرلی تھی۔ آپ نے ایک رات نماز عشاء دیر سے پڑھے جانے کا ذکر کیا اور اس کے لیے لفظ اعتم استعمال کیا جس کا مطلب یہ کہ آپ نے دیر سے اس نمازکو ادا فرمایا۔ بعض کتابوں میں تاخیر کی وجہ یہ بتلائی گئی ہے کہ آپ ﷺ مسلمانوں کے بعض معلاملات کے بارے میں حضرت صدیق اکبر ؓ سے مشورہ فرما رہے تھے، اسی لیے تاخیر ہو گئی۔

564.

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک شب رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز عشاء پڑھائی اور یہ وہی نماز ہے جسے لوگ "عتمة" کہتے تھے، پھر نماز سے فراغت کے بعد ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’کیا تمہیں اس رات کے متعلق خبر دوں، آج جو لوگ روئے زمین پر ہیں، آج سے ایک صدی پوری ہونے تک ان میں سے کوئی باقی نہیں رہے گا۔‘‘