تشریح:
(1) اس عالم رنگ و بو میں مسلمان پر ہر طرح کی مصیبتیں آتی ہیں اور تفکرات درپیش رہتے ہیں۔ وہ انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے اور اپنی زبان پر کوئی حرف شکایت نہیں لاتا اور صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے اور اس کے درجات بھی بلند ہوتے رہتے ہیں، گویا یہ تکالیف گناہوں کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہیں۔
(2) حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے بندے کے لیے کوئی مرتبہ طے کر دیتا ہے جسے وہ عمل کے ذریعے سے نہیں حاصل کر پاتا تو اللہ تعالیٰ اسے کسی بیماری یا پریشانی یا مالی نقصان میں مبتلا کر دیتا ہے، وہ بندہ اس پر صبر کر کے اس مرتبے کو حاصل کر لیتا ہے۔ (مسند أحمد: 272/5)