تشریح:
اس کا مطلب یہ ہے کہ اول وقت میں نماز ادا کی جائےتو بھی عشاء اور اگر آخر وقت میں ادا کی جائے تب بھی، یعنی تقدیم وتاخیر سے اس کے نام میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، نیز عشاء کےلیے اول وآخر دونوں وقت پسندیدہ ہیں۔ اس میں نمازی حضرات کا خیال رکھنا ہوگا، اگر وہ جلدی آجائیں تو اول وقت میں اسے پڑھ لیاجائے، بصورت دیگر کچھ مؤخر کردیا جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نمازیوں کی سہولت اور انتظامی امور کے لیے جواوقات مقرر کیے جاتے ہیں وہ صحیح نہیں بلکہ اگر اوقات مقرر نہ ہوں تو نمازیوں کے لیے پریشانی میں اضافے کا باعث ہے۔ البتہ امام بخاری ؒ اس حدیث کے پیش نظر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نماز عشاء کےلیے اول وقت کا انتخاب نہیں تھا بلکہ حسب ضرورت اس میں تقدیم و تاخیرکی جاتی تھی، چنانچہ علامہ کرمانی ؒ فرماتے ہیں کہ نماز عشاء کےلیے لوگوں کے جمع ہونے کا انتظار کرنا مستحب ہے اور جب جمع ہوجائیں تو بلاوجہ تاخیر کرنا مکروہ ہے۔ (شرح الکرماني:209/2) نماز عشاء کی تاخیر کے متعلق کہ اسے تہائی رات، نصف رات یا طلوع فجر تک مؤخر کیا جاسکتا ہے، اس کا بیان آئندہ آئے گا۔ بإذن الله.