تشریح:
(1) اس عورت کا نام ام زفر تھا اور اسے مرگی کا دورہ شیاطین کی دراندازی کی وجہ سے پڑتا تھا، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ وہ کہنے لگی: مجھے شیطان خبیث سے ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں وہ مجھے ننگا نہ کر دے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرما دی۔ آئندہ جب اسے شیطان کی طرف سے خطرہ محسوس ہوتا تو وہ غلافِ کعبہ کو پکڑ لیتی۔ (مسند البزار: 191/12، رقم: 5073) اس عورت نے علاج معالجہ چھوڑ دیا اور اپنی بیماری پر صبر کیا، نیز اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تمام بیماریوں کا علاج دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے سے بھی ہو سکتا ہے بلکہ یہ طریقۂ علاج ادویات کے علاج سے زیادہ نفع بخش ہے۔ انسانی بدن، ادویات سے زیادہ دعاؤں کا اثر قبول کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے، بلکہ دعا تو مومن کے لیے بہت بڑا ہتھیار ہے۔ بہرحال مصیبت پر صبر کرنا حصول جنت کا ذریعہ ہے اور رخصت اختیار کرنے کے بجائے سختی کو اختیار کرنا بہت بڑے مقام کا باعث ہے بشرطیکہ وہ جانتا ہو کہ مصیبت کا دورانیہ طویل ہونے کی صورت میں وہ صبر کرے گا اور ہر حالت میں صبر سے کام لے گا۔
(2) اس حدیث میں اگرچہ شیطان کی دراندازی سے مرگی کا ذکر ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے علاوہ مرگی کو اس پر قیاس کیا۔ دوسری مرگی ریاح اور گردش خون کے رک جانے سے ہوتی ہے اور اس دوران میں اعضائے رئیسہ اپنی کارکردگی کھو بیٹھتے ہیں، اس لیے انسان بے ہوش ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات ردی بخارات دماغ میں چڑھ جاتے ہیں اور اسے متاثر کر دیتے ہیں۔ بہرحال مرگی کی دونوں قسموں کو اگر انسان خندہ پیشانی سے برداشت کرے تو اسے اللہ کے ہاں جنت ملنے کی بشارت ہے۔