قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَرْضَى (بَابُ عِيَادَةِ النِّسَاءِ الرِّجَالَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَعَادَتْ أُمُّ الدَّرْدَاءِ، رَجُلًا مِنْ أَهْلِ المَسْجِدِ، مِنَ الأَنْصَارِ

5654. حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَدِينَةَ، وُعِكَ أَبُو بَكْرٍ وَبِلاَلٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَتْ: فَدَخَلْتُ عَلَيْهِمَا، قُلْتُ: يَا أَبَتِ كَيْفَ تَجِدُكَ؟ وَيَا بِلاَلُ كَيْفَ تَجِدُكَ؟ قَالَتْ: وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ إِذَا أَخَذَتْهُ الحُمَّى، يَقُولُ: [البحر الرجز] كُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِي أَهْلِهِ ... وَالمَوْتُ أَدْنَى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ وَكَانَ بِلاَلٌ إِذَا أَقْلَعَتْ عَنْهُ يَقُولُ: [البحر الطويل] أَلاَ لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبِيتَنَّ لَيْلَةً ... بِوَادٍ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ وَهَلْ أَرِدَنْ يَوْمًا مِيَاهَ مِجَنَّةٍ ... وَهَلْ تَبْدُوَنْ لِي شَامَةٌ وَطَفِيلُ قَالَتْ عَائِشَةُ: فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: «اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا المَدِينَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ، اللَّهُمَّ وَصَحِّحْهَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مُدِّهَا وَصَاعِهَا، وَانْقُلْ حُمَّاهَا فَاجْعَلْهَا بِالْجُحْفَةِ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

یہ حضرت ابودرداءؓ کی بیوی تھیں جو مسجد میں اپنے خاوند کی مزاج پرسی کے لیے حاضر ہوئی تھیں۔ یہ ام درداءؓ کے نام سے موسوم تھیں۔ باپ کا نام ابو حدرد قبیلہ اسلم سے ہیں بڑی عقلمند متبع سنت عالمہ فاضلہ خاتون تھیں ۔ ان کا انتقال حضرت ابو درداءرؓ سے دوسال پہلے ملک شام میں بعہد خلافت عثمانؓ ہو گیا تھا۔

5654.

سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت بلال ؓ کو بخار ہو گیا۔ میں ان دونوں کے پاس (مزاج پرسی کے لیے) گئی تو میں نےکہا: اباجان! آپ کا کیا حال ہے؟ بلال! آپ کی صحت کیسی ہے؟ جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو بخار ہوا تو وہ یہ شعر پڑھا کرتے تھے: ”ہر آدمی اپنے اہل خانہ میں صبح کرتا ہے۔ حالانکہ موت اس کے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہوتی ہے۔“ حضرت بلال ؓ کو جب افاقہ ہوتا تو یہ شعر پڑھتے: کاش! میں ایسی وادی میں رات بسر کرتا کہ میرے ارد گرد اذخر اور جلیل نامی گھاس ہوتی۔ کیا میں کبھی مجنہ کے چشموں پر پہنچوں گا؟ کیا میرے سامنے شامہ اور طفیل پہاڑ آئیں گے؟ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: اس کے بعد میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کو اس امر کی اطلاع دی تو آپ نے بایں الفاظ دعا فرمائی: اے اللہ! ہمارے دل میں مدینہ طیبہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور اس کی آب و ہوا کو ہمارے موافق کر دے اور ہمارے لیے اس کے مد اور صاع میں برکت عطا فرما۔ اس کی وباؤں کو کسی اور جگہ منتقل کر دے، انہیں مقام حجفہ میں بھیج دے۔“