قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَرْضَى (بَابُ عِيَادَةِ المَرِيضِ، رَاكِبًا وَمَاشِيًا، وَرِدْفًا عَلَى الحِمَارِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

5663. حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ عَلَى حِمَارٍ، عَلَى إِكَافٍ عَلَى قَطِيفَةٍ فَدَكِيَّةٍ، وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ وَرَاءَهُ، يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ، فَسَارَ حَتَّى مَرَّ بِمَجْلِسٍ فِيهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ عَبْدُ اللَّهِ، وَفِي المَجْلِسِ أَخْلاَطٌ مِنَ المُسْلِمِينَ وَالمُشْرِكِينَ عَبَدَةِ الأَوْثَانِ وَاليَهُودِ، وَفِي المَجْلِسِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ، فَلَمَّا غَشِيَتِ المَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ، خَمَّرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ، قَالَ: لاَ تُغَبِّرُوا عَلَيْنَا، فَسَلَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَقَفَ، وَنَزَلَ فَدَعَاهُمْ إِلَى اللَّهِ فَقَرَأَ عَلَيْهِمُ القُرْآنَ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ: يَا أَيُّهَا المَرْءُ، إِنَّهُ لاَ أَحْسَنَ مِمَّا تَقُولُ إِنْ كَانَ حَقًّا، فَلاَ تُؤْذِنَا بِهِ فِي مَجْلِسِنَا، وَارْجِعْ إِلَى رَحْلِكَ، فَمَنْ جَاءَكَ فَاقْصُصْ عَلَيْهِ، قَالَ ابْنُ رَوَاحَةَ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَاغْشَنَا بِهِ فِي مَجَالِسِنَا، فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِكَ، فَاسْتَبَّ المُسْلِمُونَ وَالمُشْرِكُونَ وَاليَهُودُ حَتَّى كَادُوا يَتَثَاوَرُونَ، فَلَمْ يَزَلِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى سَكَتُوا، فَرَكِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَابَّتَهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ لَهُ: «أَيْ سَعْدُ، أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ؟» - يُرِيدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ - قَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اعْفُ عَنْهُ وَاصْفَحْ، فَلَقَدْ أَعْطَاكَ اللَّهُ مَا أَعْطَاكَ، وَلَقَدِ اجْتَمَعَ أَهْلُ هَذِهِ البَحْرَةِ عَلَى أَنْ يُتَوِّجُوهُ فَيُعَصِّبُوهُ، فَلَمَّا رَدَّ ذَلِكَ بِالحَقِّ الَّذِي أَعْطَاكَ شَرِقَ بِذَلِكَ، فَذَلِكَ الَّذِي فَعَلَ بِهِ مَا رَأَيْتَ

مترجم:

5663.

حضرت اسامہ بن زیدسے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ ایک مرتبہ گدھے کے پالان (جھول یا کاٹھی) پر فدک کی چادر ڈال کر اس پر سوار ہوئے اور اسامہ بن زید ؓ کو اپنے پیچھے سوار کیا۔ آپ غزوہ بدر سے پہلے حضرت سعد بن عبادہ ؓ کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے آپ چلتے رہے کہ ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا وہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔ اس مجلس میں ملے جلے لوگ مسلمان، مشرک یعنی بت پرست اور یہودی تھے۔ ان میں عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی تھے۔ جب سواری کی گرد و غبار مجلس تک پہنچی تو عبداللہ بن ابی چادر سے اپنی ناک ڈھانپ لی اور کہنے لگا کہ ہم پر غبار نہ اُڑاؤ۔ نبی ﷺ نے انہیں سلام کیا اور سواری روک کر وہاں اتر گئے۔ پھر آپ نے انہیں دعوت اسلام دی اور قرآن کریم پڑھ کر سنایا تو عبداللہ بن ابی نے کہا: تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں اگر حق بھی ہیں تو ہماری مجلس میں انہیں بیان کر کے ہمیں تکلیف نہ پہنچاؤ۔ اپنے گھر جاؤ وہاں ہم میں سے جو تمہارے پاس آئے اسے بیان کرو۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں! آپ ہماری مجلس میں تشریف لایا کریں کیونکہ ہم ان باتوں کو پسند کرتے ہیں۔ اسکے بعد مسلمانوں مشرکوں اور یہودیوں میں جھگڑا شروع ہو گیا۔ قریب تھا کہ وہ ایک دوسرے پر حملہ کر دیتے۔ رسول اللہ ﷺ انہیں خاموش کراتے رہے یہاں تک کہ سب خاموش ہو گئے۔ پھر نبی ﷺ سواری پر سوار ہو کر حضرت سعد بن عبادہ ؓ بولے اللہ کے رسول! بے شک اللہ تعالٰی نے آپ کو وہ منصب دیا ہے جو آپ ہی کے لائق تھا۔ دراصل اس بستی کے لوگ اس بات پر متفق ہو گئے تھے اس کی تاج پوشی کریں اور اس کے سر پر پگڑی باندھیں لیکن جب اللہ تعالٰی نے اس منصوبے کو اس حق کی بدولت خاک میں ملا دیا جو آپ کو ملا ہے تو وہ اس پر بگڑ گیا ہے اور یہ جو کچھ معاملہ اس نے آپ کے ساتھ کیا ہے وہ اسی وجہ سے ہے۔