قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَشْرِبَةِ (بَابُ الشُّرْبِ مِنْ قَدَحِ النَّبِيِّ ﷺ وَآنِيَتِهِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

ترجمة الباب: وَقَالَ أَبُو بُرْدَةَ: قَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ: «أَلاَ أَسْقِيكَ فِي قَدَحٍ شَرِبَ النَّبِيُّ ﷺفِيهِ»

5683 .   حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ذُكِرَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةٌ مِنَ العَرَبِ، فَأَمَرَ أَبَا أُسَيْدٍ السَّاعِدِيَّ أَنْ يُرْسِلَ إِلَيْهَا، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا فَقَدِمَتْ، فَنَزَلَتْ فِي أُجُمِ بَنِي سَاعِدَةَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى جَاءَهَا، فَدَخَلَ عَلَيْهَا فَإِذَا امْرَأَةٌ مُنَكِّسَةٌ رَأْسَهَا، فَلَمَّا كَلَّمَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ، فَقَالَ: «قَدْ أَعَذْتُكِ مِنِّي» فَقَالُوا لَهَا: أَتَدْرِينَ مَنْ هَذَا؟ قَالَتْ: لاَ، قَالُوا: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ لِيَخْطُبَكِ، قَالَتْ: كُنْتُ أَنَا أَشْقَى مِنْ ذَلِكَ، فَأَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ حَتَّى جَلَسَ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ هُوَ وَأَصْحَابُهُ، ثُمَّ قَالَ: «اسْقِنَا يَا سَهْلُ» فَخَرَجْتُ لَهُمْ بِهَذَا القَدَحِ فَأَسْقَيْتُهُمْ فِيهِ، فَأَخْرَجَ لَنَا سَهْلٌ ذَلِكَ القَدَحَ فَشَرِبْنَا مِنْهُ قَالَ: ثُمَّ اسْتَوْهَبَهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ العَزِيزِ بَعْدَ ذَلِكَ فَوَهَبَهُ لَهُ

صحیح بخاری:

کتاب: مشروبات کے بیان میں

 

تمہید کتاب  (

باب: نبی کریم ﷺ کے پیالے اور برتن میں پینا

)
  تمہید باب

مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

ترجمۃ الباب:

حضرت ابو بردہ ؓنے بیان کیا کہ مجھ سے حضرت عبداللہ بن سلام ؓنے کہا ہاں میں تمہیں اس پیالہ میں پلاؤں گا جس میں نبی کریم ﷺنے پیا تھا ۔تشریح :حافظ صاحب فرماتے ہیں ای تبرکا بہ قال ابن المنیر کانہ اراد بھذہ الترجمۃ وضع توھم من یقع فی خیالہ ان اشرب فی قدح النبی ﷺ بعد وفاتہ تصرف فی ملک الغیر بغیر اذن فبین ان السلف کانوا یفعلون ذالک لان البنی ﷺلا یورث وما ترکہ فھو صدقۃ والذی یظھر ان الصدقۃ المذکورۃ من جنس الاوقاف المطلقۃ ینتفع بھا من یحتاج الیھا وتقر تحت ید من یو تمن علیھا الخ ( فتح الباری )باب سے مراد یہ ہے کہ تبرک کے لیے آنحضرت ﷺکے پیالے میں پانی پینا ۔ ابن منیر نے کہا کہ حضرت امام بخاری نے یہ باب منعقد کرکے اس وہم کو دفع فرمایا ہے جو بعض لوگوں کے خیال میں واقع ہواکہ آنحضرت ﷺ کے پیالے میں آپ کی وفات کے بعد پانی پینا جبکہ آپ کی اجازت بھی حاصل نہیں ہے، یہ غیر کے مال میں تصرف کرناہے لہٰذا ناجائز ہے۔ حضرت امام بخاری نے اس وہم کا دفعیہ فرمایا ہے اور بیان کیا ہے کہ سلف صالحین آپ نے پیالے میں پانی پیا کرتے تھے اس لیے کہ آنحضرت ﷺ کا ترکہ کسی کی ملکیت میں نہیں ہے بلکہ وہ سب صدقہ ہے اور ظاہر بات یہ ہے کہ صدقہ مذکورہ سابقہ اوقاف کی قسم سے ہے اس سے ہر ضرورت مند فائدہ اٹھا سکتا ہے اور وہ ایک دیندار شخص کی حفاظت میں بطور امانت قائم رہے گا جیسا کہ حضرت سہل اور حضرت عبداللہ بن سلام کے پاس ایسے پیالے محفوظ تھے اور آپ کا جبہ حضرت اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کی تحویل میں تھا۔ یہ جملہ تاریخی یاد گار ہیں جن کو دیکھنے اور استعمال کرلینے سے آنحضرت ﷺ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور خوشی بھی حاصل ہوتی ہے برکت سے یہی مراد ہے ورنہ اصل برکت تو صرف اللہ پاک ہی کے ہاتھ میں ہے تبارک الذی بیدہ الملک وھو علی کل شئی قدیر ( الملک :

5683.   حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ سے ایک عرب خاتون کا ذکر کیا گیا تو آپ نے حضرت ابو اسید ساعدی ؓ کو حکم دیا کہ اس کی طرف یہاں آنےکا پیغام بھیجیں۔ انہوں نے اس کی طرف پیغام بھیجا تو وہ حاضر ہوئی اور بنو ساعدہ کے مکانات میں ٹھہری۔ نبی ﷺ بھی تشریف لائے اور اس کے پاس گئے۔ آپ نے دیکھا کہ وہ عورت سر جھکائےبیٹھی تھی، جب نبی ﷺ نے اس سے گفتگو کی تو اس نے کہا: میں آپ سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے تجھے پناہ دی۔“ لوگوں نے اس سے کہا: کیا تجھے معلوم ہے کہ یہ کون تھے؟ اس نے کہا: نہیں۔ انہون نے کہا: یہ رسول اللہ ﷺ تھے اور تم سے نکاح کرنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ اس نے کہا: پھر میں تو انتہائی بد نصیب رہی۔ اس روز نبی ﷺ تشریف لائے اور سقیفہ بنو ساعدہ میں اپنے صحابہ کرام‬ ؓ ک‬ے ساتھ بیٹھے پھر فرمایا: ”اے سہل! پانی پلاؤ۔“ سہل کہتے ہیں کہ میں نے آپ کے لیے یہ پیالہ نکالا اور اس میں آپ کو پانی پلایا۔ پھر حضرت سہل ؓ ہمارے لیے بھی وہ پیالہ نکال کر لائے اور ہم نے بھی اس میں پانی پیا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ اس کی بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ نے ان سے یہ پیالہ مانگ لیا تھا تو انہوں نے یہ ان کو ہبہ کر دیا تھا۔