تشریح:
(1) کہتے ہیں کہ حجاج بن یوسف بہت ظالم تھا۔ وہ ظلم کرنے میں تھوڑا سا سہارا لے کر سخت سے سخت ظلم کرتا تھا۔ حلال جانور کے دودھ میں شفا ہے۔ اگر کسی کا پیٹ بڑھ جائے تو اطباء علاج کے لیے اونٹنی کا دودھ تجویز کرتے ہیں۔ اس کے استعمال سے فاسد مواد خارج ہو کر پیٹ اپنے اعتدال پر آ جاتا ہے۔ ان بدبختوں کو بھی یہی عارضہ تھا۔ مدینہ طیبہ میں رہتے ہوئے ان کے پیٹ بڑھ گئے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اونٹوں کے باڑے میں بھیج دیا اور انہیں اونٹنیوں کا دودھ پینے کی تلقین کی، چنانچہ جب وہ صحت مند ہو گئے تو چرواہے کو موت کے گھاٹ اتار کر اس کا مُثلہ کیا، پھر اونٹ ہانک کر لے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے وہی سزا تجویز کی جو انہوں نے سرکاری چرواہے کے لیے روا رکھی تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ اونٹنیوں کا دودھ بطور دوا استعمال کیا جا سکتا ہے۔