قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الطِّبِّ (بَابُ مَا يُذْكَرُ فِي الطَّاعُونِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

5729. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الخَطَّابِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، خَرَجَ إِلَى الشَّأْمِ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِسَرْغَ لَقِيَهُ أُمَرَاءُ الأَجْنَادِ، أَبُوعُبَيْدَةَ بْنُ الجَرَّاحِ وَأَصْحَابُهُ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّ الوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ بِأَرْضِ الشَّأْمِ. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَقَالَ عُمَرُ: ادْعُ لِي المُهَاجِرِينَ الأَوَّلِينَ، فَدَعَاهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ، وَأَخْبَرَهُمْ أَنَّ الوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّأْمِ، فَاخْتَلَفُوا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: قَدْ خَرَجْتَ لِأَمْرٍ، وَلاَ نَرَى أَنْ تَرْجِعَ عَنْهُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: مَعَكَ بَقِيَّةُ النَّاسِ وَأَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلاَ نَرَى أَنْ تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الوَبَاءِ، فَقَالَ: ارْتَفِعُوا عَنِّي، ثُمَّ قَالَ: ادْعُوا لِي الأَنْصَارَ، فَدَعَوْتُهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ، فَسَلَكُوا سَبِيلَ المُهَاجِرِينَ، وَاخْتَلَفُوا كَاخْتِلاَفِهِمْ، فَقَالَ: ارْتَفِعُوا عَنِّي، ثُمَّ قَالَ: ادْعُ لِي مَنْ كَانَ هَا هُنَا مِنْ مَشْيَخَةِ قُرَيْشٍ مِنْ مُهَاجِرَةِ الفَتْحِ، فَدَعَوْتُهُمْ، فَلَمْ يَخْتَلِفْ مِنْهُمْ عَلَيْهِ رَجُلاَنِ، فَقَالُوا: نَرَى أَنْ تَرْجِعَ بِالنَّاسِ وَلاَ تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الوَبَاءِ، فَنَادَى عُمَرُ فِي النَّاسِ: إِنِّي مُصَبِّحٌ عَلَى ظَهْرٍ فَأَصْبِحُوا عَلَيْهِ. قَالَ أَبُوعُبَيْدَةَ بْنُ الجَرَّاحِ: أَفِرَارًا مِنْ قَدَرِ اللَّهِ؟ فَقَالَ عُمَرُ: لَوْ غَيْرُكَ قَالَهَا يَا أَبَا عُبَيْدَةَ؟ نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ إِلَى قَدَرِ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ لَكَ إِبِلٌ هَبَطَتْ وَادِيًا لَهُ عُدْوَتَانِ، إِحْدَاهُمَا خَصِبَةٌ، وَالأُخْرَى جَدْبَةٌ، أَلَيْسَ إِنْ رَعَيْتَ الخَصْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ، وَإِنْ رَعَيْتَ الجَدْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ؟ قَالَ: فَجَاءَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ - وَكَانَ مُتَغَيِّبًا فِي بَعْضِ حَاجَتِهِ - فَقَالَ: إِنَّ عِنْدِي فِي هَذَا عِلْمًا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلاَ تَقْدَمُوا عَلَيْهِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلاَ تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ» قَالَ: فَحَمِدَ اللَّهَ عُمَرُ ثُمَّ انْصَرَفَ

مترجم:

5729.

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ ملک شام تشریف لے جارہے تھے، جب سرغ مقام پر پہنچے تو آپ کی ملاقات امراء افواج حضرت ابو عبیدہ بن جراح اور ان کے ساتھیوں سے ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ شام میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: مہاجرین اولین کو میرے پاس بلاؤ۔ ان کو بلایا تو ان سے مشورہ طلب کیا اور ان سے کہا کہ شام مین طاعون کی وباء پھوٹ پڑی ہے مہاجرین اولین نے باہم اختلاف رائے کیا: بعض نے کہا: آپ ایک عظیم مقصد (جہاد) کے لیے نکلے ہیں، لہذا ہم آپ کا واپس چلے جانا مناسب نہیں سمجھتے جبکہ کچھ دوسرے حضرات نے کہا کہ آپ کےساتھ رسول اللہ ﷺ کے باقی ماندہ صحابہ کرام‬ ؓ ہ‬یں ہم یہ مناسب نہیں سمجھتےکہ آپ ان کو لے کروبائی علاقے میں جائیں۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: آپ حضرات تشریف لے جائیں۔ پھر فرمایا: انصار کو بلاؤ۔ حضرت عباس کہتے ہیں کہ انصا کو بلالایا۔ آپ نے ان سے بھی مشورہ کیا لیکن وہ بھی کسی ایک فیصلے پر متفق نہ ہوئے بلکہ مہاجرین کی طرح اختلاف کرنے لگے، کسی نے کہا: آگے چلیں اور کسی نے وآپس جانے کا مشورہ دیا۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: تم بھی تشریف لے جاؤ۔ پھر فرمایا: میرے پاس قریش کے شیوخ کو بلاؤ جو فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کرکے مدینہ طیبہ آئے تھے میں انہیں بلا کر لایا تو ان میں کوئی اختلاف رائے پیدا نہ ہوا بلکہ انہوں نے کہا: ہمارا خیال ہے کہ آپ لوگوں کو واپس لے جائیں اور انہیں اس وباء میں نہ ڈالیں۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے یہ سنتے ہی لوگوں میں اعلان کرادیا کہ میں صبح اونٹ پر سوار ہوکر مدینہ لوٹ جاؤں گا۔ لہذا تم لوگ بھی واپس چلو، چنانچہ صبح کو ایسا ہی ہوا اس دوران میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ نے کہا: کیا اللہ کی تقدیر سے راہ فرار اختیار کیا جائے گا؟ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: اے عبیدہ! کاش! تیرے علاوہ کوئی دوسرا یہ بات کہتا۔ ہاں، ہم اللہ کی تقدیر سے راہ فرار اختیار کرکے اللہ کی تقدیر کی طرف ہی جارہے ہیں۔ مجھے بتاؤ اگر تمہارے اوںٹ کسی وادی میں جائیں جس کے دو کنارےہوں: ایک سر سبز وشاداب دوسرا خشک وبے آباد، کیا یہ بات نہیں ہے کہ اگر سر سبز خطے میں چراتے ہو تو اللہ کی تقدیر سے ایسا ہوگا اور اگر خشک وادی میں چراؤ گے تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہوگا۔ اس دوران میں حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ وہاں آگئے جو اپنی کسی ضرورت کی بنا پر اس وقت وہاں موجود نہیں تھے انہوں نے بتایا کہ میرے پاس اس مسئلے کے متعلق یقینی علم ہے میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے سنا ہے: ”اگر تم کسی ملک کے متعلق سنو کہ وہاں وبا ہے تو وہاں نہ جاؤ اور جب ایسی جگہ وبا آجائے جہاں تم خود موجود ہوتو وہاں سے مت نکلو۔“ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس وقت حضرت عمر بن خطاب ؓ نے اللہ تعالٰی کی حمد وثنا کی پھر واپس ہوگئے۔