تشریح:
(1) ان احادیث میں مسنون دم کی وضاحت ہے۔ اس سے شرک کو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی مصیبتیں، دکھ درد اور پریشانیاں دور نہیں کر سکتا۔ قرآن کریم میں بھی یہی تعلیم دی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی دوسرا اسے دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تمہیں خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں۔ وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کر دے۔ وہ بڑی مغفرت والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (یونس: 10/107)
(2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی پہلی حدیث میں ''يُعَوِذُ" کے الفاظ تھے، امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسری حدیث لا کر وضاحت فرمائی ہے کہ اس کے معنی دم کرنا ہیں تاکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کی طرح یہ ثابت ہو کہ یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دم ہے۔ (فتح الباری: 10/256)