تشریح:
(1) اس حدیث میں ہےکہ اندھیرے کی وجہ سے عورتوں کوکوئی نہیں پہچان سکتا تھا۔ اس معرفت سے مراد نوع ہے یا ذات؟علامہ داودی ؒ کہتے ہیں کہ اتنا زیادہ اندھیرا ہوتا تھا کہ مردوں کو عورتوں سے الگ طور پر پہچان سکتے تھے، لیکن یہ معنی مراد نہیں ہوسکتے، کیونکہ عورت اور مرد کی پہچان کے لیے چادروں میں ملبوس ہونا ہی کافی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد معرفت ذات ہے، یعنی اندھیرے کی وجہ سے ان کی شخصیت نہ پہچانی جاتی تھی کہ ہندہ ہے یا زینب۔ پہلے ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز سے فارغ ہوتے تو آدمی اپنے ہم نشین کو پہچان لیتا تھا۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:547) حدیث عائشہ اس کے معارض نہیں ہے، کیونکہ جب پاس بیٹھے ہوئے آدمی کو بمشکل پہچانا جاتا تھا توعورتوں کو جو چادروں میں لپٹی ہوتیں، انھیں دور سے پہچاننا واقعی ناممکن تھا۔ طبرانی کی روایت میں ہے کہ رسول الله ﷺ نماز فجر میں سورۂ"الحاقة" یا اس جیسی سورتوں کی تلاوت فرماتے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ انتہائی آرام وسکون سے اور ٹھہرٹھہر کر ترتیل سے تلاوت فرماتے تھے، نماز کے ارکان بھی پرسکون اور مکمل انداز میں پورے کرتے، نماز سے فراغت کے بعد آدمی بمشکل اپنے ہم نشین کو پہچانتا اور عورتوں کو پہچاننا مشکل ہوتا۔ یہ سب باتیں اس موقف کی تائید کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ منہ اندھیرے نماز فجر پڑھا کرتےتھے۔ (فتح الباري:38/2)
(2) رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’نماز فجر صبح کے خوب روشن ہوجانے پر پڑھا کرو کیونکہ یہ تمھارے اجر میں اضافے کا موجب ہے۔‘‘ (مسند أحمد:465/3) اس میں اور دیگر احادیث کے مابین دو طرح سے تطبیق ممکن ہے:٭نماز کا آغاز تاریکی میں کیا جائے، لیکن قراءت اتنی طویل ہو کہ سلام پھیرنے کے وقت صبح خوب روشن ہوجائے۔ اسے امام طحاوی ؒ اور امام ابن قیم ؒ نے اختیار کیا ہے۔٭صبح روشن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے واضح ہونے میں کوئی شک نہ رہے۔ اس موقف کو امام شافعی ؒ اور امام احمد ؒ نے اختیار کیا ہے۔ واضح رہے کہ صبح کو روشن کرکے نماز فجر ادا کرنا بھی رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، لیکن آخر کار جس عمل پر تادم حیات مداومت فرمائی، وہ اندھیرے میں نماز فجر کی ادائیگی ہے، جب کہ حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز فجر ایک مرتبہ اندھیرے میں پڑھی، دوسری مرتبہ اسے خوب روشن کرکے پڑھا، پھر وفات تک آپ کی نماز اندھیرے ہی میں رہی۔ آپ نے دوبارہ کبھی روشن کرکے نہیں پڑھی۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:394) اس مسئلے میں اگرچہ اختلاف ہے، تا ہم ہمارے ہاں راجح یہی ہے کہ نماز فجر اندھیرے ہی میں ادا کی جائے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا دائمی عمل یہی ہے، پھر خلفائے اربعہ اور جمہور صحابۂ کرام اور تابعین عظام نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ یاد رہے کہ رسول اللہ ﷺ صرف افضل عمل پر ہمیشگی کرتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کوئی نماز اس کے آخری وقت میں نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی۔ (السنن الکبرٰی للبیهقي :435/1) سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ فرماتے ہیں: نماز فجر کا وقت صبح صادق سے لے کر طلوع آفتاب تک ہے۔ اور صبح صادق سے مراد وہ سفیدی ہے جو آسمان کے مشرقی کنارے پر پھیل جاتی ہے اور اس کے بعد تاریکی نہیں ہوتی۔ (رسالة مواقیت الصلاة، ص:10) والله أعلم.